بلوچستان اسمبلی اجلاس، امان و امان کی تشویشناک صورتحال پر حکام بالا کو طلب کرلیا گیا

کوئٹہ (قدرت روزنامہ) بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے صوبے میں امن وامان کی مخدوش صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ امن و امان کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جائیںجبکہ ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے چیف سیکرٹری بلوچستان، آئی جی پولیس، ڈی جی پی ڈی ایم اے، سیکرٹری داخلہ کو امن و امان اور سیلاب سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات پر اراکین اسمبلی کو بریفنگ دینے کیلئے آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا،بلوچستان کمرشل کورٹس کا مسودہ قانون متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا . پیر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی بلوچستان اسمبلی سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا .

اجلاس میں بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے ایوان کی توجہ بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنے پر بیٹھے فزیو تھراپسٹس کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ فزیو تھراپسٹس ایسوسی ایشن بلوچستان اپنے مطالبات کیلئے گزشتہ کئی ماہ سے احتجاج پر ہیں گزشتہ دنوں ریڈ زون کے سامنے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے 25کے قریب فزیو تھراپسٹس اور طلباءکو گرفتار کیا گیا ہے . انہوں نے کہاکہ انکی گرفتاری جمہوری روایت میں وزرائ مسئلے کا حل نکالیں انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے استدعا کی کہ وہ دھرنے پر بیٹھے فزیو تھراپسٹس سے مذاکرات کیلئے ایوان میں کمیٹی بنائیں . پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہاہے کہ 25کے قریب فزیو تھراپسٹس کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے . حکومتی وزراءفزیو تھراپسٹس کے خلاف درج مقدمہ واپس لے کر انکے مطالبات منظور کریں . صوبائی وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ فزیو تھراپسٹس سے ملاقات میں وزیراعلیٰ نے انکے مطالبات کے تحت محکمہ صحت کو دو سو آسامیوں کی تخلیق کیلئے مراسلہ ارسال کیا ہے میں اور نصر اللہ زیرے بھی فزیو تھراپسٹس سے مذاکرات کیلئے گئے مگر وہ بضد تھے کہ نوٹیفیکیشن جاری ہونے تک وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے . رکن صوبائی اسمبلی میر عارف محمد حسنی نے کہا کہ حکومت فزیو تھراپسٹس کو اسمبلی طلب کرکے ان سے بات چیت کرے، ڈپٹی اسپیکر نے حکومتی اراکین پر مشتمل 4رکنی وفد کو فزیو تھراپسٹس سے مذاکرات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ احتجاج پر بیٹھے فزیو تھراپسٹس کے نمائندوں کو ڈپٹی اسپیکر کے چیمبر میں طلب کریں تاکہ ان سے بات چیت کی جاسکے . پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے 16اکتوبر کو لورالائی میڈیکل کالج کے عقب میں واقعے ڈیم میں پکنک منانے کیلئے جانے والے طلباءکو روک کر ان پر فائرنگ کی جس سے اسرار خان اوتمانخیل شہید اور دیگر تین طلباءزخمی ہوئے ہیں انہوں نے کہاکہ لورالائی میں بچوں کے اغواءکے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں . آئے روز لورالائی ڈی جی خان شاہراہ پر ٹرکوں پر حملہ کیا جاتا ہے سر عام منشیات فروخت کی جارہی ہے ڈپٹی کمشنر جرائم پیشہ عناصر کے سامنے بے بس ہے انہوں نے کہاکہ خاران میں سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا صوبے کے دیگر علاقوں میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے انہوں نے کہا ہے کہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین سے سرکاری گارڈ واپس لئے گئے ہیں جبکہ پرائیویٹ لوگ گارڈز گھما رہے ہیں . رکن اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ چاغی میں بد امنی و بھتہ خوری کے واقعات رونما ہورہے ہیں وہاں حالات خراب ہیں . صوبائی مشیر داخلہ کو ایوان میں طلب کیا جائے تاکہ وہ ہمیں اس حوالے سے مطمئن کرسکیں کہ آیا کیا اقدامات کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی میں نے امن و امان کی مخدوش صورتحال کے حوالے سے ایوان میں معاملات اٹھائے ہیں . بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہاکہ بارشوں اور سیلاب کے بعد وزیر اعظم نے بلوچستان کے چار سے پانچ دورے کئے ہیں، انہوں نے کہاکہ سیلاب اور بارشوں سے بلوچستان مزید 100سال پیچھے چلا گیا ہے نصیر آباد ڈویژن میں اب تک پانی کھڑا ہے . لوگ سڑک کنارے بیٹھے ہیں چار پانچ ماہ گزرجانے کے باوجود حکومت انہیں ٹینٹ تک فراہم نہیں کرسکی ہے . زمینداروں کے تین سے چار سو ارب سے زائد کے نقصانات ہوئے ہیں . اے این پی کے رکن اسمبلی ملک نعیم بازئی نے کہا کہ کوئٹہ کے کلی نوحصار، اغبرگ میں زمینیں بازئی قبائل کی ملکیت ہیں گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے پر ایوان کی کمیٹی بنائی جائے، رکن بلوچستان اسمبلی میر ظہور بلیدی نے کہا کہ گزشتہ روز خاران میں بلوچستان ہائیکورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کو شہید کیا گیا اور انکے قتل کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے . ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج اسمبلی میں ان معاملات پر بحث کی جاتی، جج سے لیکر عام انسان تک صوبے میں سب غیر محفوظ ہیں حالات روز بروز خراب ہورہے ہیں اس پر اسمبلی اور حکومت سمیت ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے . انہوں نے کہا کہ ہر روز ایک واقعے کی مذمت کی جاتی ہے اور اسکے بعد کوئی اور واقعہ رونما ہوتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے . انہوں نے کہاکہ بلیدہ میں دو روز قبل نجی اسکول کو نذر آتش کیا گیا ہے یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں بحیثیت قوم ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں جارہے ہیں . انہوں نے کہاکہ ایک سازش کے تحت مکران کو تعلیمی لحاظ سے پیچھے دھکیلا جارہا ہے . صوبائی وزیرزراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہاکہ 10جولائی سے شروع ہونیوالی بارشوں کے دوران بلوچستان حکومت نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے بروقت اقدامات اٹھائے، گزشتہ اجلاس میں ہم نے بارشوں اور سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کے حوالے سے وفاق سے 22بلین روپے کا پیکج کی قرار داد منظور کرائی مگر وفاقی حکومت نے اب تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان حکومت میں 10ہزار ٹریکٹر گھنٹے 3سو بلڈوزر گھنٹے ہر رکن کو فراہم کررہی ہے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم بلوچستان کے دورے پر آکر علامہ اقبال اور غالب کے اشعار پڑھ کر واپس چلے جاتے ہیں ایسے میں وہ جماعتیں جو وفاقی حکومت کی اتحادی ہیں وہ وزیر اعظم پر دبا? ڈالیں پوری دنیا سے وفاقی حکومت کو امداد فراہم کی گئی ہے مگر بلوچستان تک یہ امداد نہیں پہنچی . رکن اسمبلی عارف محمد حسنی نے کہاکہ کڈنی سینٹر میں مریضوں کے رش میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے مگر محکمہ خزانہ نے بجائے اس کے کڈنی سینٹر کے بجٹ میں اضافہ کیا جاتا ہے پہلے سے مختص بجٹ میں کٹ لگا دیا ہے انہوں نے کہاکہ میری درخواست پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی کڈنی سینٹر کا دورہ کیا مگر ڈیڑھ ماہ سے محکمہ صحت وزیراعلیٰ کو سمری تک ارسال نہیں کرسکی . انہوں نے کہاکہ ٹراما سینٹر میں ڈویلپمنٹ کے جو کام جاری تھے انہیں روک دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ چاغی میں کنٹریکٹ پر ڈاکٹرز تعینات کئے جارہے ہیں . صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ لورالائی میں گزشتہ دنوں پیش آنے والا اغوا کا واقعہ لین دین کا تنازعہ تھا گزشتہ روز طلبائکے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کررہے ہیں آئندہ اجلاس میں رپورٹ ایوان میں پیش کردی جائے گی . انہوں نے کہاکہ محمد نور مسکانزئی کی شہادت ایک انتہائی دلخراش سانحہ ہے حکومت نے واقعے کی تحقیقات کیلئے جی آئی ٹی تشکیل دی ہے بلوچستان حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے . انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سیلاب کے حوالے سے صوبائی حکومت کو ایک دھیلہ تک نہیں دیا ہم کسی سے بھیک نہیں مانگ رہے جو صوبے کا حق ہے اس کا مطالبہ کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان حکومت کے وسائل انتہائی محدود ہیں سیلاب متاثرین کو دوبارہ انکے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے دو سال لگیں گے . ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان، آئی جی پولیس، ڈی جی پی ڈی ایم اے، سیکرٹری داخلہ کو امن و امان اور سیلاب سے متعلق پہنچائے گئے اقدامات پر اراکین اسمبلی کو بریفنگ دینے کیلئے آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا . اجلاس میں صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ نے ایوان کو بتایا کہ چاغی میں ڈاکٹروںکی تعیناتی کیلئے دوبار سمری بھیجی گئی ہے جس پر اعتراضات لگ کر سمری واپس ہوئی ہے اب اگر اعتراض لگایا تو براہ راست وزیراعلیٰ سے بات کروں گا . انہوں نے کہاکہ پی پی ایچ آئی کی کارکردگی مجموعی طورپر بہتر ہے ٹراما سینٹر محدود سہولیات کے باوجود بہتر خدمات فراہم کر رہا ہے ہر جگہ کچھ لوگوں کے اختلافات ہوتے ہیںیہاں بھی جوڈاکٹروں کی آپس کی رنجش کی وجہ سے مسئلہ درپیش ہے . انہوں نے کہا کہ فزیو تھراپسٹ کی پوسٹیں محکمہ صحت نہیں بلکہ محکمہ خزانہ نے منظور کرنی ہیں اگر وہ منظورکرے تو اس پرہمیں کوئی اعتراض نہیں . قائد حزب اختلاف ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈرپر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ بارشوں کے نقصانات کے ازالے کا لائحہ عمل تیار ہوناچاہئے ارکان اسمبلی کو بتایا جائے کہ امدادی سامان اور رقوم کہاں تقسیم ہوئے انہوں نے کہا کہ ترکی سے امدادی سامان کی دو ٹرینیں آئی ہیں بتایا جائے کہ وہ سامان کہاں گیا . انہوں نے کہا کہ نوحصار میں ایک بار پھر سرکار قبائل کی زمینوں کو اپنے نام کر رہا ہے اس حوالے سے 1992ءمیں بننے والی کمیٹی کا فیصلہ تھا کہ بلاپیمودہ زمینیں قبائل کی ملکیت ہیں ایک بار پھر اغبرگ اور نوحصار میں یہ مسئلہ درپیش ہے اس سلسلے کوروکا جائے . انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ،قلات،زیارت،پشین سمیت صوبے کے جن اضلاع میں گیس فراہم کی گئی ہے وہاں گیس پریشر نہ ہونے کے برابرہے پریشر کو بحال کیا جائے . انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے جسٹس (ر) محمد نورمسکانزئی جو اپنے آبائی علاقے میں مقیم تھے انکا تحفظ حکومت کی ذمہ داری تھی جس میں حکومت ناکام رہی ہے اس موقع پراظہارخیال کرتے ہوئے جمعیت کے رکن اصغر علی ترین نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے حالات سنگین ہیں اسسٹمنٹ کمیٹی میں بہت سے علاقے اور لوگ رجسٹرڈ ہونے سے رہ گئے ہیں انہیں دوبارہ درخواست دینے کا موقع فراہم کیا جائے . انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو اسمبلی کی جانب سے محافظ فراہم کئے گئے تھے وہ اب واپس لے لئے گئے ہیںاس کا متبادل حل تلاش کیا جائے . جمعیت علماءاسلام کے رکن حاجی نواز کاکڑنے کہاکہ ضلع قلعہ عبداللہ میں 5سوسے زائد بجلی کے کھمبے گرے ہیں جبکہ 33میںسے 4سے5فیڈر چل رہے ہیں باقی فیڈرز کوبحال کیا جاءجس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی کہ اراکین اسمبلی آئندہ اجلاس سے قبل چیف سیکرٹری سمیت دیگر حکام کے ساتھ منعقدہ اجلاس میں اپنے مسائل اجاگر کریں . انہوں نے وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ بھی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس کی صدارت کریں . اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی کی رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ کچھ روز قبل آمنہ بی بی کو اسکے شوہر نے غیرت کے نام پر قتل کردیااور ملزم ابتک فرار ہے اسکی گاڑی تو مل گئی لیکن ملزم ابھی تک گرفتار نہیں ہوا آئے روز گھریلو تشدد ،غیرت کے نام پرقتل کے واقعات رونما ہورہے ہیںاس حوالے سے قوانین موجود ہیں جن پرعملدرآمد یقینی بنایاجائے . پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ صوبائی اسمبلی نے وفاقی لیویز کو صوبے کے حوالے کرنے کے حوالے سے قرار داد منظور کی تھی تاحال انکی تنخواہیں بند ہیں اورسروس اسٹرکچر بھی نہیں بنایا گیا اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں . بی اے پی کے رکن اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ گریڈ17اور18کے افسران کیلئے ترقی کے امتحان دینے کی عمر کی حد میں رعایت دی جائے بعد ازاں پارلیمانی سیکرٹری ماہ جبین شیران نے ایوان میں بلوچستان کمرشل کورٹس کامسودہ قانون مصدرہ2022پیش کیا جسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپردکردیا گیااور ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس 20اکتوبر کی سہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کردیا .

. .

متعلقہ خبریں