افسانہ: شہر بانو کے رونے کی آواز اور میری نیند

 

(قدرت روزنامہ)’چک 36 شمالی میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا۔’ اخبار کے اندرونی صفحات میں شائع شدہ ایک خبر۔

یہ واقعہ پرسوں رات کا ہے، اور میں قاتل اور مقتولہ کا پڑوسی ہوں۔ آج صبح کافی دیر تک سونے کے بعد جب میں جاگا تو اخبار میں یہ خبر پڑھی۔ اگر میں اخباری نمائندہ ہوتا تو اخبار کی درج بالا سرخی میں لفظ ‘دوسری’ کا اضافہ کرتا، کیونکہ زرینہ اشرف کی دوسری بیوی تھی جسے پرسوں رات اس نے قتل کردیا تھا۔

محلے میں اس حوالے سے 2 افواہیں گردش کر رہی ہیں:

پہلی افواہ: زرینہ کہتی تھی کہ یہ مکان اس کے نام کردیا جائے جبکہ اشرف ایک پیدائشی کنجوس آدمی ہے، وہ کسی کو بخار بھی نہیں دے سکتا۔ اس کی کنجوسی کو واضح کرنے کے لیے لوگ درج ذیل واقعہ بھی سناتے ہیں:

واقعہ: اشرف پراپرٹی کا کام کرتا ہے، اِدھر زمین خریدی، اُدھر بیچ دی، روپے پیسے کی اسے کمی نہیں۔ وہ لکھ پتی نہیں بلکہ اب کروڑ پتی ہے، چند برس پہلے جب اس کا باپ گردوں کے مرض میں مبتلا ہوا تو ڈاکٹر نے اسے ہر ہفتے ڈائیلیسز کروانے کا علاج تجویز کیا۔

پڑھیے: افسانہ: ذات

چک 36 شمالی سے 50 کلومیٹر دُور 2 ہسپتال ہیں، ایک سرکاری، ایک پرائیویٹ۔ دونوں میں ایک ایک ڈائیلیسز مشین موجود ہے۔ سرکاری مشین پر علاج کے لیے دس روپے کی پرچی جب کہ پرائیویٹ مشین پر یہی سہولت 6 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔ سرکاری مشین پر علاج کے لیے بعض اوقات آپ کو ایک لمبے اور تکلیف دہ انتظار سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

اشرف کا باپ کئی بار انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے تکلیف کی شدت سے بے ہوش ہوا مگر اس نے مرتے دم تک سرکاری ہسپتال سے علاج کروایا۔

افواہ 2: زرینہ کا شادی سے پہلے ہی رشید سُنارے کے بیٹے کامران سے چکر چل رہا تھا۔

واقعہ: آج سے 4 سال پہلے کامران میٹرک میں دوسری بار فیل ہوا تو اس کے باپ رشید نے اسے اپنے پاس دکان پر بٹھا لیا اور وہ زیورات بنانے کا ہنر سیکھنے لگا۔ روپے پیسے کی کمی نہیں تھی اور جب پیٹ بھرا ہو تو آدمی کو عجیب و غریب خیالات سوجھتے ہیں۔ بس ایسے ہی خیال کے زیرِ اثر وہ زرینہ کے چکر میں پڑگیا۔ دکان سے بہانے بہانے اٹھ کر اس کی گلی میں آجاتا اور اِدھر اُدھر ٹہلتا رہتا۔ پھر ایک روز موبائل نمبرز کا تبادلہ ہوا۔

جب بھی کامران اور زرینہ کا قصہ بیان ہوتا ہے، تب محلے کے تین، چار لوگ ہاتھ کھڑا کرکے درج ذیل جملے ضرور بولتے ہیں:

‘جی جی، میں نے خود زرینہ کو ایک پرچی کامران کو دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ پچھلی گرمیوں میں دوپہر کی بات ہے۔’

‘نہیں نہیں، یہ صبح سویرے کا واقعہ ہے، میں نے خود دیکھا تھا۔’

‘نہیں دوپہر کا، گلی سے میں گزر رہا تھا۔ باقی صرف وہ دو تھے۔’

‘دوپہر’

‘نہیں صبح’

‘نہیں’

‘ہاں مگر۔۔۔’

دوپہر اور صبح کا وقت طے نہیں ہو پاتا مگر اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ زرینہ نے کاغذ کامران کو دیا تھا اور اس میں موبائل نمبر درج تھا۔ اس کے بعد وہ سارا سارا دن فون پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ شام کو نہر کنارے کانوں سے فون لگائے سب نے کامران کو دیکھ رکھا تھا۔

پڑھیے: اندھیروں کے عادی

محلے کے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اشرف کی پہلی بیوی پاگل نہ ہوتی تو کامران کی شادی زرینہ سے ضرور ہوجاتی۔

اشرف کی پہلی پاگل بیوی کا قصہ:

اشرف کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کسی ایسی لڑکی سے کرے جو چک 36 کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو، رشتہ کروانے والی ماسی زیتون نے سارے چک 36 کی کنواری لڑکیوں کے رشتے اسے دکھائے مگر کافی تلاش بسیار کے باوجود اسے کوئی لڑکی پسند نہ آئی۔ یہاں 2 باتیں قابلِ ذکر ہیں:

پہلی بات: اشرف کا باپ آج سے 30 برس پہلے چک 36 شمالی میں آیا تھا، لوگ اس کے بارے صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ شہر سے ایک روز یہاں آیا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اس کی کریانے کی دکان چک 36 کی مشہور دکانوں میں سے ایک تھی تاہم اشرف نے پراپرٹی کا کام شروع کیا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد اس نے دکان سامان سمیت فروخت کردی تھی۔

دوسری بات: اشرف کا باپ اپنی بیوی کو کبھی بھی گھر سے نہ نکلنے دیتا اور 30 برسوں میں کسی نے بھی اسے محلے کے کسی گھر میں جاتے نہیں دیکھا تھا۔

ان کے گھر میں ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ بھی نہیں تھا۔

پھر ایک روز اشرف کی ماں نے مٹھائی کے پیکٹ بناکر محلے کے بچوں میں تقسیم کیے کہ زیتون نے اس کے لیے کسی دوسرے گاؤں میں بہو تلاش کرلی تھی جس کا نام شہر بانو تھا اور وہ اتنی خوبصورت تھی کہ ہاتھ لگانے سے بھی میلی ہوجائے۔

اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ واقعی ایسی ہی خوبصورت تھی۔ اشرف شادی کے بعد شروع کے کچھ دن بہت خوش رہا پھر سنجیدہ ہوگیا، پھر اس نے بول چال تقریبا ًترک کردی۔ کوئی اس سے بات کر رہا ہوتا تو وہ بے دھیانی میں کوئی اور جواب دیتا۔

پڑھیے: افسانہ: چلتی ٹرین میں رُکی ہوئی کہانی

میں چونکہ اشرف کا پڑوسی ہوں اور اگر اس کی پہلی شادی کے بعد کے دنوں کو یاد کروں تو درج ذیل باتیں یاد آتی ہیں:

پہلی یاد: وہ جون کی ایک گرم رات تھی، سارا دن لو چلتی رہی تھی حتیٰ کہ رات کو بھی ہوا منہ کو جھلسا رہی تھی۔ ایسے موسم میں نیند بھلا کہاں آتی ہے، میں ویہڑے میں ٹہلنے لگا، اسی دوران مجھے رونے کی آواز آئی۔ دیوار کے اس پار کوئی رو رہا تھا۔

پھر اشرف کی آواز آئی۔

‘میں کہتا ہوں چُپ کرجاؤ، آواز نہیں نکلنی چاہیے تمہاری’

‘خدا کے لیے مجھے مت مارو’

‘چُپ کرو!’

‘میں نے کچھ نہیں کیا’

‘بکواس۔۔۔’

‘قسم۔۔۔’

‘چُپ۔۔۔’

دوسری یاد: اوپر بیان کیے گئے واقعے کے چند روز بعد میں تواتر سے یہ رونا بلکہ اونچی آواز میں رونا سُنتا رہا۔

کئی بار ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی کسی کو شدت سے پیٹ رہا ہے، برتن گر رہے ہیں۔ ایک بار میں نے اونچی آواز میں پوچھا بھی کہ خیریت ہے، کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں۔ میرا ایسا پوچھنے پر آواز رُک جاتی، مگر پھر وہی ریں، ریں۔۔۔

اس روز روز کی لڑائی جھگڑے اور رونے سے میرے اپنے بیوی بچے بہت ڈرے ہوئے تھے، وہ رات گئے تک جاگتے رہتے کہ ابھی وہ رونا دھونا پھر شروع ہوجائے گا۔ میری بیوی کئی بار دن میں شہر بانو کے پاس گئی اور اس سے اِس لڑائی کی وجہ دریافت کی تاہم وہ کچھ نہ بولی۔ مگر مجھے میری بیوی نے بتایا تھا کہ اس کی آنکھوں میں حلقے اور چہرے پر نیل پڑے ہوئے تھے۔

میں خود اِس روز روز کی چیخ وپکار سے تنگ آگیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میری نیندیں برباد ہوکر رہ گئی تھیں۔ مجھے ٹکڑوں میں نیند آتی اور میں خواب میں بھی شہر بانو کے رونے کی آواز صاف سنتا رہتا تھا۔ شہر کے ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میں انسومیا کے مرض کا شکار ہوچکا ہوں۔

ایک دن مجھے اشرف گلی میں ملا، سلام دعا کے بعد میں نے کہا کہ، ‘اشرف بھائی سب خیریت ہے، آپ کے ہاں رات کو کافی شور شرابہ سنائی دیا ہے۔ برتن بھی ٹوٹنے کی آوازیں آتی ہیں’۔

اشرف نے یہ سُن کر رازدارانہ انداز میں میرے کان میں کہا۔

‘دراصل میری بیوی پاگل ہے، کسی کو بتانا مت۔ کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتی۔’

اگرچہ کہ میں نے کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کیا مگر چند ہی روز میں ہر دوسرا شخص یہی کہہ رہا تھا کہ اشرف پراپرٹی ڈیلر کی بیوی پاگل ہوگئی ہے۔ اِس کی وجہ کچھ عجیب و غریب واقعات کا وقوع پذیر ہونا تھا۔

پڑھیے: افسانہ : دُور سے آئے ہوئے لوگ

پہلا واقعہ: اشرف کے گھر میں ایک کنواں تھا، میونسپل کمیٹی کا پانی جس روز نہ آتا تو محلے کے لوگ اسی کنویں سے پانی بھرتے، ایک روز بیدے موچی کی بیوی کنویں سے پانی بھر رہی تھی کہ شہر بانو نے اسے پیچھے سے دھکا دے دیا اور وہ آدھی کنویں کے اندر اور آدھی باہر لٹکنے لگی۔ اگر اسی وقت جانی مرغی فروش کی بیوی وہاں نہ پہنچتی تو یقیناً یہ موچی کی بیوی کا آخری دن ہوتا۔

مرغی فروش کی بیوی کا بیان:

‘میں نے اس روز جیسے ہی ڈیوڑھی پار کی تو آگے کا منظر بے حد عجیب تھا۔ شہر بانو، شہناز کو پاؤں سے پکڑ کر کنویں میں پھینکنے ہی لگی تھی کہ میں نے دوڑ کر اسے پیچھے ہٹالیا۔ اس وقت اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں۔ وہ تالیاں بجا بجا کر کہہ رہی تھی، کہ کیسا لگتا ہے کنویں کے اندر، دیکھو دیکھو، تمہارے یار بیٹھے ہیں اندر۔ اندھیرا ہے۔ اندھیرا ہے۔ آنکھیں کھولو سب نظر آئے گا۔ کتنے ہیں اندر؟ ایک، دو یا تین؟’

اس واقعے کے بعد کوئی بھی کنویں پر اکیلا پانی بھرنے نہ جاتا۔

Recent Posts

سوزوکی نے آخر کار اپنی مشہور زمانہ گاڑی ’ کیری ڈبہ‘ بند کرنے کا اعلان کر دیا

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پاکستان میں مشہور "کیری ڈبہ" سوزوکی بولان کا سفر باضابطہ طور پر ختم…

2 mins ago

پچھلے دور حکومت میں فوج کو سیاست کےلئے استعمال کرنے کی واردات کی کوشش ہوئی تھی، سیکیورٹی حکام

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فیض حمید نے جو کچھ کیا اس…

12 mins ago

دنیا کی سب سے بڑی کمپنی مرسک کا پاکستانی کمپنی میں پارٹنرشپ طے پا گئے

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)(دنیا کی سب سے بڑی شپنگ لائن کمپنی مرسک اور پاکستانی کمپنی میں…

24 mins ago

آئی ایم ایف دوست ممالک کی یقین دہانیوں سے مطمئن ہوگیا ہے، وزیر خزانہ

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ…

30 mins ago

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے لاہور جلسے کےحوالے سے ویڈیو پیغام جاری کردیا

پشاور (قدررت روزنامہ) وزیراعلی خیبرپختونخواعلی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا سے نکلنے…

34 mins ago

کیا کپل شرما نے نئے سیزن میں ارچنا کو نکال کر گووندا کی اہلیہ کو ہنسنے کیلئے رکھ لیا؟

ممبئی (قدرت روزنامہ)نیٹ فلکس پر دی گریٹ انڈین کپل شو سیزن 2 کے لیے مداح…

2 hours ago