اکلوتانوجوان بیٹامفلوج ،مہنگی بیماری اوروالدین غریب ،ایک معمولی سی بے احتیاطی عمربھرکاروگ بن گئی

منڈی بہاؤالدین(قدرت روزنامہ)والدین کے لیے ان کے بچے اس دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں والدین غریب ہوں یا امیر ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس دنیا کی تمام نعمتیں فراہم کریں اور ان کو ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں . مگر یہی اولاد جب جوان ہو جاتی ہے تو اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لیتی ہے .

مگر ان کے کیے گئے کچھ کامنہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کے والدین کے لیے بھی عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں . گرمیوں کے موسم میں نوجوان اکثر اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ نہروں یا سوئمنگ پول جا کر پکنک کا پروگرام بناتے ہیں اور اس دوران شرارت اور مستی میں ایک دوسرے کو دھکا دینا یا ڈبکیاں لگانا بھی ایک عام روٹین ہوتی ہے . مگر منڈی بہاؤالدین کے علاقے ہالیہ کا یہ نوجوان حسن رضا اس حوالے سے بد قسمت ثابت ہوا کہ گزشتہ سال سوئمنگ پول میں نہاتے ہوئے جب اس نے چھلانگ لگائی تو اس چھلانگ کے دوران اس کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا . ریڑھ کی ہڈی کے اس اہم ترین مہرے کے ٹوٹنے سے نوجوان کو موت کا شکار تو نہیں ہوا مگر ایک زندہلاش میں ضرور تبدیل ہوگیا اور اس کا پورا جسم مفلوج ہو گیا والدین کا اکلوتا چشم و چراغ حسن رضااپنی ایک انگلی تک ہلانے سے قاصر ہو گیا . اس کی اس بیماری نے غریب اور بوڑھے والدین کی کمر توڑ دی اور انہوں نے اپنے جوان بیٹے کے علاج کے لیے ہر جتن شروع کر دیا . کبھی لاہور تو کبھی راولپنڈی یہاں تک کہ اسلام آباد کے مہنگے ترین ہسپتالوں کے بھی در کھٹکھٹائے . مگر غریب والدین کے اکلوتے بیٹے کو ملنے والی اس مہنگی بیماری کے علاج کا کوئی راستہ نہ مل سکا البتہ اس کوشش میں ان کے تن پر صرف کپڑے ہی بچ سکے اور ایک ایک کر کے گھر کا تمام قیمتی سامان فروخت ہو گیا . اور وہ مجبوراً غربت کے نشان سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے . گھر میں پڑا ہوا مفلوج جوان اکلوتا بیٹا منتظر نگاہوں سے باپ کی طرف علاج کے لیے دیکھتا ہے ڈاکٹروں کے مطابق حسن رضا کا علاج بیرون ملک ہی ممکن ہے مگر اس کے غریب والدین کے اندراب اتنی سکت موجود نہیں ہے کہ وہ بچے کو بیرون ملک لے جا سکیں . حسن رضا کے والدین نے مجبوراً حکومت وقت سے یہ اپیل کی ہے کہ ان کے بچے کے علاج کے لیے اسباب فراہم کیے جائیں ان کا جوان بیٹا ان کے بڑھاپے کا سہارا ہے جس کے علاج کے لیے وہ تمام کوششیں کر چکے ہیں . مگر اب ان کی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کو مدد کے لیے مخیر حضرات اور حکومت کی ضرورت ہے جو ان کے اس بڑھاپے کے سہارے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کامیاب کر سکیں . . .

متعلقہ خبریں