غلط بیانی کے مقدمے میں نامزد صحافی کو پولیس نے عدالت کے بجائے خفیہ طور پر مجسٹریٹ کے گھر میں پیش کرنے کا انکشاف

 

رپورٹ : عبدالکریم

ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی لوگ عید قربان کی تیاروں میں مصروف تھے . جبکہ دوسری طرف لورالائی پریس کلب کے صدر پولیس تھانے کے پولیس اہلکار دنیا نیوز سے وابستہ بزرگ صحافی پیرمحمد کاکڑ کو گرفتار کرنے کا پلان بنارہی تھی .

عید سے ایک دن قبل سات جولائی دو ہزاربائیس کو پولیس نے پیرمحمد کاکڑ کو گرفتار کرکے اسے حوالات میں بند کردیا . پولیس نے یہ کارروائی ڈپٹی کمشنر عتیق الرحمن کے ڈرائیور درانی خان ولد مالک قوم اتمانخیل کی مدعیت میں درج کیے جانے والے استغاثہ پر کی .
استغاثہ رپورٹ میں ڈرائیور درانی خان نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ من سائل بطور ڈرائیور جناب ڈپٹی کمشنر لورالائی کے ساتھ بطور ڈرائیور خدمات سرانجام دے رہا ہوں . کچھ یوم قبل نام نہاد صحافی پیرمحمد کاکڑ نے ہمارے ڈپٹی کمشنر کے خلاف فیس بک پر من گھڑت الزامات لگا کر پوسٹ لگائے . جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب لورالائی نے ایک عدد نوٹس پیرمحمد کو جاری کیا . جس میں الزامات کوثابت کرنے کے لیے تین یوم کا وقت دیا گیا . لیکن ہفتہ سے زائد گزرنے کے باوجود ہی نہ تو الزامات کا جواب دے سکا نہ ہی وہ نوٹس کا جواب داخل کرواسکا .
جبکہ میں جب بھی اپنے حلقہ احباب میں بیٹھتا ہوں تو لوگ مجھ سے نام نہاد صحافی پیرمحمد کاکڑ کے مبینہ الزامات کی بابت مجھ سے طرح طرح سوالات کرتے ہیں . جس کی وجہ سے سائل کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے . اور سائل کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے . جو کہ ہتک عزت کے زمرے میں آتا ہے لہذا آنجناب سے بذریعہ درخواست گزارش کی جاتی ہے کہ مسمی پیرمحمدکاکڑ کے خلاف تعزیرات پاکستان دفعہ ۵۰۰ ت پ جو ہتک عزت سے متعلق ہے کہ تحت قانونی کاروائی کی جائے . ’’
یاد رہے ڈپٹی کمشنر عتیق الرحمن نے ۹ جولائی کو اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پرٹویٹ کرتے ہوئے گرفتار صحافی کو دیے گئے نوٹس کی کاپی شئیر کی تھی جس میں ڈی سی لورالائی کہتے ہیں ،، چونکہ میرا تعلق نہ صرف بلوچستان بلکہ بلوچستان سول سروس گروپ سے بھی ہے . اور اس لیے میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کرنا چاہتا ہوں کہ میں اور میرا ادارہ بلوچستان صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کسی بھی زیادہ دکھ درد رکھتا ہے بلکہ ہمیشہ اس معاملے میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے .

جیسا کہ میں اور میرا ادارہ ملک میں اظہار رائے پر یقین رکھتا ہے . اس لیے تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۴۹۹ کی کارروائی جس میں ایف آئی آر اور گرفتاری بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے کے بجائے آپ کو تین دن کی مہلت دے کر کہ آپ اپنا تحریری جواب بمعہ تمام تر ثبوت و اثبات جناب کمشنر لورالائی ڈویژن کے دفتر میں جمع کرادیں . تحریری جواب اندر معیاد جمع نہ کرنے کی صورت میں یہ اخذ کیا جائیگا کہ آپ کے پاس اپنے من گھڑت بیانات بیانیے کے حق میں کوئی ثبوت نہیں اور آپ کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۴۹۹ کے

تحت کارروائی عمل میں لائی جائیگی . جس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر عائد ہوگئی . ،،

پیرمحمد کاکڑ نے گرفتاری اورمقدمہ کے سبب عوامی مسائل ، وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل رکھنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا اور لورالائی پریس کلب میں خوردبرد سمیت شہر کے مسائل اجاگر کرنا اور اس کو رپورٹ کرنا جس میں ڈپٹی کمشنر لورالائی کی مبینہ کرپشن سامنے آرہی تھی بتایا .
پیرمحمد کاکڑ کے بقول : ان کے گرفتاری کے بعد پولیس پر بہت پریشرتھا جس کی وجہ سے انہوں نے مجھے خفیہ طور پر جوڈیشل مجسٹریٹ کے گھر میں پیش کردیا . میرے وکلا پیش ہونے سے پہلے مجھے جوڈیشل کیا . جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیصلہ سنا دیا اور مجھے جیل بھیج دیا گیا .
پیرمحمد کاکڑ نے بتایا کہ جب ان کے اہلخانہ ان کے چینل سے ان کی گرفتاری کی اطلاع دی اور قانونی معاونت فراہم کرنے کی اپیل کی تو چینل والوں نے اس کیس کو سوشل میڈیا سے نتھی کرلیا تھا .


پولیس تھانہ صدر لورالائی کےسابق ایس ایچ اوعبدالکریم مندوخیل کا اس بابت کہنا تھا کہ پولیس کو ایک درخواست موصول ہوئی جس پر استغاثہ بناکر عدالت سے وارنٹ گرفتاری حاصل کرکے پیرمحمد کاکڑ کو عدالت میں پیش کیا گیا . ان کے بقول جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسے جیل بھیج دیا اور سب کارروائی قانون کی مطابق ہوئی .
ڈپٹی کمشنر لورالائی عتیق الرحمن پیرمحمد کاکڑ کے الزامات کو مسترد کرتےہوئے کہتے ہیں کہ اگر وہ سچے ہوتے تو وہ الزامات کے ثبوت پیش کرتے جو انہوں نے نہیں کیے .
عتیق الرحمن کے بقول : پیرمحمد کاکڑ چاہتے تھے کہ پریس کلب کے بیس لاکھ کی گرانٹ حکومت اسےدے دے اور وہ اسے خرچ کریں . جبکہ میں نے صحافیوں کی کمیٹی بنائی تو پیرمحمد نے کچھ الزامات لگائے اس لئے میں عدالت گیا کہ ثابت کرے نہیں تو قانونی کارروائی ہوگی .
ڈپٹی کمشنر عتیق الرحمن کے مطابق انہوں نے صحافیوں کیلئے جو کمیٹی بنائی ان میں چیف آفیسر، ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر کے علاوہ پیرمحمد کاکڑ کے گروپ کا اور ایک دوسرے گروپ کا اور ایک ایک سیٹزن ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کا نمائندہ شامل ہے .
پیرمحمد کاکڑ کا صحافیوں کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے بابت کہنا تھا کہ جھگڑا اسی بات پر تھا ڈپٹی کمشنر نےمیرے گروپ کا کوئی صحافی نہیں لیا تھا جبکہ اس میں غیر متعلقہ بندوں کو لیا تھا . انجمن تاجران اور سیٹزن ایکشن کمیٹی میونسپل اور لوکل گورنمنٹ کا اس میں کیا کام ہے . یہ تو صحافیوں کی تنظیم ہے ان کے اکاونٹ میں پیسے آتے ہیں .
پیرمحمد کاکڑ کے بقول: انہوں نے تجویز دی تھی کہ اسسٹنٹ کمشنر کے سربراہی میں دو صحافی میرے گروپ کے لے لو اور دو بندے میرے مخالف گروپ کے لے لو اور وہ پیسوں کی نگرانی کریں .
یاد رہے ہیں بلوچستان میں صحافت ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا ہے . جانی نقصان کے ساتھ یہاں صحافیوں پر وقتاً فوقتاً مقدمات بھی درج کئے جاتے رہیں ہیں .

. .

متعلقہ خبریں