بلوچستان کے22اضلاع میں ماہر امراض نسواں نہ ہونے کاانکشاف


مطیع اللہ مطیع

پشین کے کلی ملکیار کے رہائشی 34سالہ امین اللہ کے اہلیہ کی یہ چوتھی زچگی تھی ان کی پہلے تین بچوں کی پیدائش نارمل ڈیلیوری سے ہوئی چوتھی ڈیلیوری کیلئے امین اللہ اہلیہ کو پہلے گھر سے 3کلومیٹر کے فاصلے پرواقع بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو)لے گیا لیکن وہاں ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے 12 کلومیٹر دور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پشین لے جارہے تھے لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی .

25ہزار آبادی پرمشتمل آبادی والے علاقے میں ایسا کوئی نجی کلینک بھی نہیں تھا کہ جہاں کوئی ماہر ڈاکٹر ان کی اہلیہ کی جان بچا سکے ںیونین کونسل ملکیار سمیت 4کونسلوں پر صرف ایک ہی بنیادی مرکز صحت کایونٹ ہے چاروں یونین کونسلوں کی آبادی لگ بھگ 25ہزار ہے اس بی ایچ یو میں صرف ایک میڈیکل آفیسر جبکہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر تعینات ہے .

امین اللہ کے چچازاد جمال الدین ملکیار کہتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے انگریز دور میں بنائے گئے بیسک ہیلتھ یونٹ جہاں انگریزوں نے خوشدل خان سکول،خوشدل خان تھانے کے ساتھ خوشدل خان ہسپتال بھی تعمیر کیاتھا اب ملکیار بی ایچ یو کے نام سے جاناجاتاہے یہاں 25سال پہلے پنجاب کی رہائشی خاتون ایل ایچ وی کے طورپر کام کررہی تھی لیکن اس کے جانے کے بعد یہاں کوئی بھی ایل ایچ وی نہیں آئی .

بیسک ہیلتھ یونٹ چلانے والے پی پی ایچ آئی کے حکام سے بارہا ملاقاتیں کرکے بی ایچ یو میں گائنی یا ایل ایچ وی کی تعیناتی کیلئے درخواستیں دی ہیں لیکن صرف طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں ملا 4یونین کونسلزملکیار ون ،ملکیار ٹو،سکان خان ،سریلا حبیب زئی عمر زئی جہاں 25ہزار افراد کی آبادی ہے لیکن صرف ایک بیسک ہیلتھ یونٹ اور یہاں بھی کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہے .

چاروں یونین کونسل میں زچگی کیسز کو 12کلومیٹر دور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال لے جاناپڑتاہے یا پھر 12کلومیٹر دور منزکی جہاں پرائیویٹ ڈاکٹرز بیٹھتے ہیں اور فی کیس 8سے 10ہزار روپے وصول کرتے ہیں سرکار کی طرف سے شہر کیلئے صرف 4گائنی ڈاکٹرز ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں تعینات ہیں .

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائٹڈنیشنز پاپولیشن فنڈز(یو این ایف پی اے )کے سیلاب کے دوران ویب سائٹ پرشائع ہونے والی اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 1.6ملین خواتین تولیدی عمر کی ہیں جن میں ایک لاکھ 30ہزار حاملہ خواتین ہیں جن میں سے 20 ہزار کے قریب خواتین کے ہاں اگلے ماہ بچوں کی پیدائش متوقع ہے . محکمہ خزانہ بلوچستان کی ویب سائٹ پر موجود بجٹ دستاویزات کے مطابق بلوچستان کے 36اضلاع میں صرف 13اضلاع میں ماہر امراض نسواں ہیں جبکہ 22اضلاع میں ماہر امراض نسواں سے محروم ہیں . پی پی ایچ آئی کے رپورٹ 2021ء کے مطابق بلوچستان کے 34اضلاع کے 753بنیادی مراکز صحت میں 73لیڈی میڈیکل آفیسرز جبکہ 452لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں2021ء میں31ہزار سے زائد ڈیلیوریاں بی ایچ یوز میں ہوئی ہیں . پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں .

بنیادی مرکز صحت کی مشکلات ومسائل

بنیادی مرکز صحت میں کام کرنے والے ویکسینیٹرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ہمارے ہاں ادویات کی کمی ،عملے کی غیر حاضری اور صفائی کی ابتر صورتحال کامسئلہ درپیش ہے ادویات آنے والے مریضوں کیلئے ناکافی ہوتی ہیں اس حوالے سے بارہا حکام کو آگاہ کرچکے ہیں لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوسکی ہے ،لیبر روم ،ای پی آئی سینٹر کے علاوہ لیبر روم میں ایل ایچ وی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گائنی کے نارمل کیسز ریفر کئے جاتے ہیں .

پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کا شمار ملک کے سب سے پسماندہ صوبے کے طورپر ہوتاہے بلوچستان کے ساتھ افغانستان ،ایران کابارڈر لگتاہے اور اس کے ساتھ بحرہ عرب کی ساحلی پٹی لگتی ہے . پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کے رپورٹ 2021ء کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ غربت کی شرح 40.7فیصد بلوچستان میں ہے . حالیہ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق پاکستان اپنے گراس ڈیموسٹک پروڈکٹ(جی ڈی پی ) کا صرف 1.2فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتاہے جبکہ بلوچستان اپنے کل بجٹ کا 6.2فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتاہے .

محکمہ خزانہ بلوچستان کی ویب سائٹ پر موجود بجٹ دستاویزات کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع کوئٹہ ،قلات، نصیرآباد،پنجگور ،نوشکی،قلعہ عبداللہ ،سبی ،ژوب، لسبیلہ ،کیچ، خضدار،لورالائی ودیگر میں ماہر امراض نسواں کے سکیل 18سے لیکر20گریڈ تک 60تک کی مختلف آسامیاں ہیں محکمہ صحت کی جانب سے پبلک سروس کمیشن کے زیرایل ایم او کی آسامیاں مشتہر کی جاتی ہے .

ماں اور نوزائیدہ بچے کے صحت کے پروگرام (ایم این سی ایچ)کے صوبائی کوآرڈنیٹر اسماعیل میروانی کے مطابق پروگرام کو فنڈز، ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال، لیڈی ڈاکٹر سمیت ماہر افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں .

ڈاکٹر اسماعیل میروانی کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع بارکھان، شیرانی، آواران، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، موسی خیل، واشک، خاران سمیت بلوچستان کے ان اضلاع میں زچگی کے دوران ماں کی اموات کی شرح زیادہ ہے ( اس حوالے سے ڈی ایچ او سے رابطہ کیا تو ان کا موقف تھاکہ صوبے کی سطح پر ڈیٹا مینٹیننس کیلئے کوئی نظام نہیں اور ضلع کی سطح پر ڈیٹا نہیں ہے )جہاں زچہ و بچہ کے لیے جامع دیکھ بھال کی سہولیات یعنی ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال سمیت تربیت یافتہ طبی عملہ، لیبر روم، آپریشن تھیٹر اور دیگر ضروری سہولیات موجود نہیں .

پاکستان بیوروسٹیٹسٹکس کے اعداد وشمار کے مطابق ضلع پشین کی آبادی 7لاکھ 36ہزار آبادی نفوس پرمشتمل ہیں جس میں3لاکھ 56ہزار خواتین ہیں یہاں مرد و خواتین کا تناسب 106.09 ہے اور آبادی میں اضافے کی شرح 3.58 فیصد سالانہ ہے .

بلوچستان میں34اضلاع میں753بنیادی مراکز صحت فعال

پیپلرزپرائمری ہیلتھ کیئرانیشیٹیو(پی پی ایچ آئی )کے سالانہ رپورٹ 2021ء کے مطابق صوبے بھر کے 34اضلاع میں753بنیادی مراکز صحت فعال ہیں جہاں گزشتہ سال 31ہزار640ڈیلیوریاں ہوئیں جن میں17ہزار575بی ایچ یوزاور 14ہزار65گھروں میں ہوئیں . ان بنیادی مراکز صحت میں طبی عاملہ جس میں میڈیکل آفیسرز،لیڈی میڈیکل آفیسرز اور ڈینٹل سرجنز کی تعداد 228جبکہ ایل ایچ ویز ،ایم ٹیز ،لیب اسسٹنٹ،ویکسینیٹرز،ڈسپنسر،سوشل آگنائزر اور فمیل سوشل آرگنائزر کی تعداد 1388ہیں یہ محکمہ صحت بلوچستان کے پے رول پر ہے جبکہ پی پی ایچ آئی کے اپنے ملازمین کی تعداد1426ہیں .

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائٹڈنیشنز پاپولیشن فنڈز(یو این ایف پی اے )کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کنیم کے مطابق خواتین اور لڑکیاںموسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور قدرتی آفات کے بڑھتے ہوئے پھیلائوکاشکار ہیں جب بحران آتا ہے تو خواتین حاملہ ہونا اور بچے کو جنم دینا بند نہیں کرتی ہیں .

بلوچستان اورسندھ صوبوں میں 750کے قریب صحت کی بنیادی مراکز کو نقصان پہنچا ہے . یواین ایف پی اے متاثرہ علاقوں کو ہسپتال کے خیموں، تولیدی صحت کی کٹس اور فوری طور پر ضروری سامان فراہم کر رہا ہے تاکہ صحت کی اہم خدمات جاری رہ سکیں .

بولان میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر سید ظہور شاہ نے سہولیات کی فقدان پرافسوس کااظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صوبے کے اکثراضلاع میں سہولیات کا فقدان ہے آپریشن تھیٹر میں بجلی تک میسر نہیں تو پھر لیبرروم میں ایک گائناکالوجسٹ بغیر سہولت کے کیسے کام کرسکتی ہے جو انتہائی حساس معاملہ ہے . اس کیلئے ضروری ہے کہ ڈسٹرکٹ کی سطح پر ڈی ایچ کیو ہسپتال بنیں تاکہ ہر ضلع میں کم از کم 4سے 6گائناکالوجسٹ ڈاکٹرزموجود ہوں .
بلوچستان ایک ہی میڈیکل یونیورسٹی ہے یہاں کے ڈاکٹرز مزید تعلیم کیلئے بیرون صوبہ سفر کرتے ہیں .

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی نے بتایا کہ بلوچستان میں طبی عملے بالخصوص گائنا کولوجسٹ، خواتین ڈاکٹر، اینستھیزسٹ اور تربیت یافتہ دائیوں کی شدید کمی ہے . اینستھیزسٹ تو کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں میں بھی پورے نہیں .

ڈی جی ہیلتھ کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں مجموعی طور پر 1600 سے زائد ہسپتال اور صحت کے مراکز ہیں جن میں نو ٹیچنگ ہسپتال، دو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 28 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ،108 رورل ہیلتھ سینٹرز، 784 بنیادی مراکز صحت جبکہ 91 زچہ و بچہ مراکز شامل ہیں .

انہوں نے بتایا کہ صوبے میں صرف 1700 کمیونٹی مڈ وائف (تربیت یافتہ دائیاں)اور 1500 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہیں .

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر عبدالغفار کاکڑ نے بتایاکہ ضلع کی سطح پر صحت کا شعبہ تین حصوں میں تقسیم ہے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کوایم ایس ،بی ایچ یوز پی پی ایچ آئی کے ماتحت جبکہ ریجنل ہیلتھ سینٹرز ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے ماتحت ہے ڈی ایچ کیو میں 4سے5گائناکالوجسٹ فرائض سرانجام دے رہے ہیں . طبی عاملے بالخصوص ڈاکٹرز کی کمی ہے پشین میں کوئٹہ سے ڈاکٹرز آکر ڈیوٹی کرتے ہیں لیکن وہ مکمل ڈیوٹی نہیں کرتے جس کی وجہ سے مشکلات کاسامنا ہے .

شرح اموات کو 298سے 200تک لانے کا ہدف

محکمہ صحت کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹرخالد قمبرانی کے مطابق محکمہ صحت کے دو حصے ہے ایک پرائمری دوسرا سیکنڈری ہے پرائمری ہیلتھ کیئر میں سول ڈسپنسری ،بیسک ہیلتھ یونٹ ،رولرہیلتھ سینٹرز ہیں جبکہ سیکنڈری ہیلتھ کیئر میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اور ٹی ایچ کیو شامل ہیں .

ماہر امراض نسواں کی کمی کو دور کرنے کیلئے 35گائنا کالوجسٹس کی تعیناتی کی سمری بھیج دی گئی ہے جلد ہی تعیناتی عمل میں لائی جائیگی اس کے علاوہ نرسنگ کالجز کے ذریعے تربیت یافتہ دہائیوں کی کمی کودور کرنے کیلئے کوششیں جاری ہے آئندہ 5سالوں میں ایل ایچ ویز کی جو خلاء پائی جارہی ہے وہ ختم کی جائیگی کیونکہ اس وقت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں نرسنگ کالجز بنا کر اس میں تربیت فراہم کی جارہی ہے .

انہوں نے کہاکہ ہم نے ایک ٹارگٹ رکھاہے کہ 1000ء میں جوشرح اموات 78ہے اس کو 50جبکہ ایک لاکھ میں 298کو کم کرکے 200تک لائیں تاکہ دوران زچگی اموات کم سے کم ہوں .

. .

متعلقہ خبریں