بلوچستان:سیلاب سے 2859 اسکول تباہ، مزید تباہی سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

مطیع اللہ مطیع
ضلع قلعہ عبداللہ کے کلی سپینہ تیژہ حاجی زاعفران کے علاقے میں قائم گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کی عمارت مون سون بارشوں و سیلاب کے بعد پہلے جیسی نہیں رہی یہ سکول پورے علاقے کا واحد سکول ہے بارشوں سے سکول کے دو کمروں ،چاردیواری اور بیت الخلاء کونقصان پہنچاہے . سکول کی عمارت کو نقصان پہنچنے سے طالبات کی تعلیم متاثر ہورہی ہے .

ان میں سے ایک طالبہ 8سالہ بی بی فاطمہ بھی ہے جن کی تعلیم متاثر ہوئی ہے .
گرلز پرائمری سکول کی طالبات اب لڑکوں کی سکول میں زیر تعلیم ہے جو قبائلی معاشرے میں برا سمجھاجاتاہے . بی بی فاطمہ کہتی ہے کہ بارشوں سے سکول متاثر ہونے کے بعد ہم اپنے سکول نہیں جا پارہے جس سے میری تعلیم متاثر ہورہی ہے میں مطالبہ کرتی ہوں کہ ''میرے سکول کی جلد سے جلد تعمیر ومرمت کی جائیں تاکہ میں دوبارہ سکول جا سکوں'' .
محکمہ تعلیم سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے مطابق ضلع قلعہ عبداللہ میں کل66سکولز متاثر ہوئے ہیں جس میں 146کمرے ،30واش رومز ،21بائونڈری والز شامل ہیں 66سکولوں میں کل 6ہزار 651بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں .
ضلع قلعہ عبداللہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 100کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے .
بی بی فاطمہ کے والد ظفر اللہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر ایک اور تیز بارش ہوئی توگورنمنٹ گرلز پرائمری سکول سپینہ تیژہ منہدم ہوجائے گا . ظفر اللہ کی یہ ایک ہی بیٹی ہے وہ چاہتے ہیں کہ اس کی بیٹی بہتر تعلیم حاصل کرے .
سپینہ تیژہ کی آبادی 4ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جہاں اس وقت تین پرائمری سکولز ہیں جن میں 2لڑکوں اور ایک لڑکیوں کیلئے ہے .
ضلع قلعہ عبداللہ کا رقبہ 4ہزار 894کلو میٹرپر محیط ہے جس کی آبادی 3لاکھ 23ہزار793ہے قلعہ عبداللہ میں 5سال سے 14سال کی عمر تک ایک لاکھ 3ہزار590بچے اور بچیاں ہیں .
پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق ضلع قلعہ عبداللہ میں شرح خواندگی 51فیصد ہے جس میں 67فیصد مرد اور 32فیصد خواتین کی ہے . ظفر اللہ کہتے ہیں کہ میں اس لئے اپنی بیٹی کوپڑھاناچاہتا ہوں کیونکہ یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے .
غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سکولوں سے باہر بچیوں کو تعلیم کے ساتھ ہنر سکھانے پر کام کررہاہے . آئی آر سی کے سینئر منیجر برائے ٹیچ پروجیکٹ سید افتخار شاہ کے مطابق مون سون بارشوں سے آئی آر سی کے قائم کردہ سکولز بھی متاثر ہوئے ہیں اس سلسلے میں نہ صرف آئی آر سی نے مختلف سرکاری سکولز کی تعمیر ومرمت میں مدد دی بلکہ سرکاری سکولز کے اساتذہ کو سائیکلوجیکل فرسٹ ایڈ فراہم کررہے ہیںتاکہ وہ زندگی کے دوڑ میں دوبارہ شامل ہوسکے .
بلوچستان بھر میں 15ہزار96سکولز میں مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے 28سو 59سکولز ،6ہزار565کمرے ،24سو 3واش رومز ،1068چاردیواری ،118امتحانی ہالزاور 31دفاتر متاثر ہوئے ہیں ،28سکولز میں 3لاکھ 86ہزار 708بچے اوربچیاں زیر تعلیم ہیں .
ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کیا ہے ؟
ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ ڈیزاسٹر رسک میں کمی کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کا اطلاق ہے تاکہ نئے آفات کے خطرے کو روکا جا سکے، موجودہ آفات کے خطرے کو کم کیا جا سکے اور بقایا خطرے کا انتظام کیا جا سکے، جس سے لچک کو مضبوط بنانے اور آفات کے نقصانات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے .
ممکنہ آفات کے خطرے کے انتظام کی سرگرمیاں تباہی کے نئے یا بڑھتے ہوئے خطرات سے بچنے کی کوشش کرتی ہیںاور تباہی کے خطرات سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جو مستقبل میں ترقی کر سکتے ہیں اگر آفات کے خطرے کو کم کرنے کی پالیسیاں نافذ نہ کی گئیںتو اس سے بڑے پیمانے پر انسانی جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے .
ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ پلان ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے متعلقہ اقدامات کے ساتھ آفات کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اہداف اور مخصوص مقاصد کا تعین کرتے ہیں . ان کی رہنمائی ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن 2015-2030 کے لیے سینڈائی فریم ورک کے ذریعے کی جانی چاہیے اور متعلقہ ترقیاتی منصوبوں، وسائل کی تقسیم اور پروگرام کی سرگرمیوں کے اندر غور و خوض کیا جانا چاہیے . قومی سطح کے منصوبوں کو ہر سطح کی انتظامی ذمہ داری کے لیے مخصوص اور مختلف سماجی اور جغرافیائی حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے . منصوبہ میں عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم اور ذمہ داریاں اور فنڈنگ کے ذرائع بتائے جائیں . جہاں ممکن ہو پائیدار ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے موافقت کے منصوبوں کے ساتھ رابطے کیے جائیں .
محکمہ ثانوی تعلیم کے ڈویژنل ڈائریکٹر کلیم اللہ شاہ کہتے ہیں کہ محکمہ تعلیم سیلاب سے متاثرہ سکولز کی تعمیر ومرمت یونیسف کے تعاون سے جاری ہے اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی فنڈز مختص نہیں کئے گئے البتہ محکمہ تعلیم صرف سکولز کی نشاندہی کرسکتاہے جس کے بعد تعمیر کیلئے فنڈز محکمہ مواصلات اور تعمیرات استعمال میں لاتی ہے .
کلیم اللہ نے ڈیزاسٹرریسک ری ڈکشن سے متعلق بتایاکہ سکولز کی تعمیر ومرمت ،انجینئرنگ اور سپرویژن محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے پاس ہے محکمہ تعلیم صرف اپنی ضروریات کی نشاندہی کرسکتی ہے اس حوالے سے نہ تو محکمہ تعلیم کی سفارشات خاطر میں لائے جاتے ہیں نہ ہی ٹیکنیکل سپورٹ محکمہ تعلیم صرف بلڈنگ کی حوالگی کرتی ہے بعض اوقات محکمہ تعلیم کے بغیر کسی وزیر یا رکن اسمبلی کی جانب سے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو سکولز کی تعمیر کرتی ہے اور پھر محکمہ تعلیم کو حوالہ کرتی ہے جس پر محکمہ اختلاف بھی کرتی ہے کہ محکمے کی جانب سے کوئی ری کمنڈیشن نہیں آئی ہے پھر کیسے تعمیر ہوئی .
انجینئر عالمگیر خان غیرسرکاری تنظیم بی آر ایس پی کی جانب سے سکولز کی تعمیر نو کے پروجیکٹ سے منسلک رہے وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اکثر سکولز کی بلڈنگز پرانے ہیں بہت کم نئے بلڈنگز کی تعمیر ہوتی ہے لیکن اس میں ڈیزاسٹرریسک ری ڈکشن کا فارمولہ نہیں اپنایا جاتا .
قلعہ عبداللہ زلزلے کے ریڈ زون میں واقع ہے بدقسمتی سے اس حوالے سے ڈیزاسٹر کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اپنائے جارہے پرانے طرز پر سکولز کی بلڈنگز بن رہی ہے . اس نے خدشہ ظاہر کیاکہ اسی طرح غیر تیکنیکی کام کا سلسلہ جاری رہا توہم بڑے نقصان کاسامنا کرسکتے ہیں .
سابق صوبائی وزیر ورکن صوبائی اسمبلی میر ظہوراحمدبلیدی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں 15ہزار کے لگ بگ سکولز ہے جس کاسالانہ بجٹ تقریباََ80بلین ہے بدقسمتی سے بلوچستان میں تعلیم کیلئے کوئی پلان نہیں ہے بھرتیوں کا طریقہ کار نہ ہونے اورڈراپ آئوٹ ریشو بہت زیادہ ہے ،بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہے بلکہ تعیناتیوں کے بعد ٹرانسفر پوسٹنگ بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے جس کا تعلیم پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں . بلوچستان میں سکولز کی تعمیر ومرمت کیلئے کوئی پلاننگ نہیں جبکہ ڈیٹا اورعمل درآمد کا فقدان ہے .
تعلیم کی بہتری اور نتیجہ خیز بنانے وگورننس کی بہتری کیلئے ایجوکیشن سیکٹرپلان پر عملدرآمد ،صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے تعلیم میں مداخلت سے گریز کرناچاہیے ،صوبائی بیورو آف سٹیٹسٹکس کو فعال کرکے تحقیق کے بعد پلاننگ کی ضرورت ہے . پرائمری تک جینڈری فری کیاجائے تو تعلیم کے شعبے میں بہتری لائی جاسکتی ہے .

. .

متعلقہ خبریں