مطیع اللہ مطیع
بنیادی مرکز صحت ڈب خانزئی پشین بازار سے 17کلومیٹر پر واقع ہے جہاں ایک ہی لیڈی ڈاکٹر تعینات ہے 26اگست کو مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے بی ایچ یو ڈب خانزئی کی عمارت پانی سے بھر گیا جبکہ کھڑکیاں اور دروازیں اور طبی آلات پانی میں ڈوب گئے .
کلی ملکیار کے رہائشی 34سالہ امین اللہ کی اہلیہ پہلے تین بچوں کی پیدائش نارمل ڈیلیوری سے ہوئی چوتھی ڈیلیوری کیلئے امین اللہ اہلیہ کو پہلے گھر سے 3کلومیٹر کے فاصلے پرواقع بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو)لے گیا لیکن وہاں ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے 14 کلومیٹر دور ڈب خانزئی بی ایچ یولے جارہے تھے لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی .
بولان میڈیکل کالج کوئٹہ گائنی یونٹ کی سربراہ پروفیسرڈاکٹرنجمہ غفارکہتی ہے کہ بلوچستان کاخستہ حال انفراسٹرکچردوران زچگی شرح اموات میںاضافے کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن سیلاب کے بعد انفراسٹرکچر مزید تباہ ہوگیاہے جس سے حاملہ خواتین کو طبی مقامات تک پہنچنے میں شدیدمشکلات کاسامنا کرنا پڑتاہے .
بلوچستان کے 25میں735بنیادی مراکز صحت میں196بی ایچ یوزسیلاب وبارشوں سے متاثر ہوئی ہیں جن میں24بی ایچ یوزمکمل تباہ ،173بی ایچ یوز کے بلڈنگز ،دروازوں کو جزوی نقصان پہنچاہے . پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں . محکمہ صحت زچگی کے دوران1000میں 78کو50اورایک لاکھ میں298خواتین کی اموات کو 200تک لانے کیلئے کوشاں ہے جس کیلئے ایل ایچ ویز کی کمی کوپورا اور گائنا کالوجسٹ کی بھرتیاں کی جارہی ہے .
پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کا شمار ملک کے سب سے پسماندہ صوبے کے طورپر ہوتاہے بلوچستان کے ساتھ افغانستان ،ایران کابارڈر لگتاہے اور اس کے ساتھ بحرہ عرب کی ساحلی پٹی لگتی ہے . پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کے رپورٹ 2021ء کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ غربت کی شرح 40.7فیصد بلوچستان میں ہے . حالیہ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق پاکستان اپنے گراس ڈیموسٹک پروڈکٹ(جی ڈی پی ) کا صرف 1.2فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتاہے جبکہ بلوچستان اپنے کل بجٹ کا 6.2فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتاہے .
امین اللہ کے چچازاد جمال الدین ملکیار کہتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے انگریز دور میں بنائے گئے بیسک ہیلتھ یونٹ جہاں انگریزوں نے خوشدل خان سکول،خوشدل خان تھانے کے ساتھ خوشدل خان ہسپتال بھی تعمیر کیاتھا اب ملکیار بی ایچ یو کے نام سے جاناجاتاہے یہاں 25سال پہلے پنجاب کی رہائشی خاتون ایل ایچ وی کے طورپر کام کررہی تھی لیکن اس کے جانے کے بعد یہاں کوئی بھی ایل ایچ وی نہیں آئی .
بنیادی مراکز صحت میں طبی عاملہ میںمیڈیکل آفیسرز،لیڈی میڈیکل آفیسرز اور ڈینٹل سرجنز کی تعداد 228جبکہ ایل ایچ ویز ،ایم ٹیز ،لیب اسسٹنٹ،ویکسینیٹرز،ڈسپنسر،سوشل آگنائزر اور فمیل سوشل آرگنائزر کی تعداد 1388ہیں یہ محکمہ صحت بلوچستان کے پے رول پر ہے جبکہ پی پی ایچ آئی کے اپنے ملازمین کی تعداد1426ہیں .
جمال الدین ملکیار کہتے ہیں کہ چاروں یونین کونسل میں زچگی کیسز کو 14کلومیٹر دور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال یا پھر ڈب خانزئی کے بی ایچ یو لے جاناپڑتاہے یا پھر 12کلومیٹر دور منزکی جہاں پرائیویٹ ڈاکٹرز بیٹھتے ہیں اور فی کیس 8سے 10ہزار روپے وصول کرتے ہیں سرکار کی طرف سے شہر کیلئے صرف 4گائنی ڈاکٹرز ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں تعینات ہیںلیکن حالیہ سیلاب کے بعد سے سڑکوں کی حالت زار ابتر ہوگئی ہے .
ڈاکٹرنجمہ غفارکے مطابق بلوچستان کی آبادی دوردراز رقبے پرپھیلی ہوئی ہے اورہم سب کو طبی سہولیات فراہم نہیں کرسکتے، تاہم گھرگھرجاکرموبائل یونٹ کے ذریعے شرح اموات کو کم کیاجاسکتاہے . جن علاقوں میں لوگ ہسپتالوں تک پہنچ نہیں پاتے ہم مقامی لیڈی ہیلتھ وزیٹرزکوتربیت دیں تاکہ وہ بہتر خدمات فراہم کرسکیں سیلاب کے بعد تربیت کی فراہمی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے .
ملکیار کے مطابق 25ہزار آبادی پرمشتمل آبادی والے علاقے میں ایسا کوئی نجی کلینک بھی نہیں تھا کہ جہاں کوئی ماہر ڈاکٹر ان کی اہلیہ کی جان بچا سکیںیونین کونسل ملکیار سمیت 4کونسلوں پر صرف ایک ہی بنیادی مرکز صحت کایونٹ ہے چاروں یونین کونسلوں کی آبادی لگ بھگ 25ہزار ہے اس بی ایچ یو میں صرف ایک میڈیکل آفیسر جبکہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر تعینات ہے .
ایک بنیادی مرکز صحت 25ہزار آبادی کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے تاہم بلوچستان کی قلیل آبادی کے پیش نظر 5ہزار سے 8ہزار آبادی پر ایک بی ایچ یو قائم کی جاتی ہے . بنیادی مرکز صحت کے ڈھانچے میں 4کمرے،ایک سٹور روم، عملے میں ایک میڈیکل آفیسر ،ایک لیڈی میڈیکل آفیسر،فی میل میڈیکل ٹیکنیشن ،میل میڈیکل ٹیکنیشن ،ویکسینیٹر،چوکیدار اور سویپر شامل ہیں . ترجمان کے مطابق پی پی ایچ آئی کلسٹرنظام کے تحت 80فیصد بنیادی مراکز صحت میں ڈاکٹرز سے ڈیوٹی لے رہی ہے . 122میڈیکل آفیسر اور44لیڈی میڈیکل آفیسر مستقل بنیادوں پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں .
پی پی ایچ آئی کے رپورٹ مطابق بلوچستان کے 34اضلاع کے 753بنیادی مراکز صحت 735فعال ہیں جہاں سال 2021ء میں 31ہزار 640ڈیلیوریاں ہوئی ہیں جن میں17ہزار575بی ایچ یوزاور 14ہزار65گھروں میں ہوئیں .
30سالہ خالدہ کا تعلق بلوچستان کے علاقے ڈیرہ الرحمن سے ہے وہ کوئٹہ میں اپنے بھائی جویہاں سرکاری ملازمت کررہے ہیںکے ہاں مقیم ہے خالدہ کاکہناہے کہ بارشوں اور سیلاب کے بعد آج بھی ہمارے علاقے میں پانی موجود ہے جب بارشیں ہورہی تھی تو میں امید سے تھی .
وہ کہتی ہے کہ حمل اور بچے کی پیدائش ہنگامی حالت ،قدرتی آفت یا بارش کے ختم ہونے کاانتظار نہیں کرتی بھائی کے مشورے پر میں کوئٹہ آئی جہاں میرے بچے کی ڈیلیوری ہوئی ہے اگر اپنے علاقے میں ہوتی تو شاید میں یا بچے یا پھر دونوں میں کوئی نہ رہتا . بھائی کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے .
خالدہ کہتی ہے کہ فرحان کے والد ایک ہفتے پہلے گھر گئے وہاں کی حالت زار دیکھی تو فون کیا کہ فی الحال آنے کی ضرورت نہیں ہے گھر خستہ حال ہوگیاہے جس کے بننے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں .
پی پی ایچ آئی بلوچستان کے زیراہتمام سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 708میڈیکل کیمپ منعقدکئے گئے جہاںماہرمعالجین نے ایک لاکھ80ہزار536مریضوں کو اوپی ڈی کی سہولت فراہم کی، جن میں 58ہزار974مرد، 67ہزار974خواتین اور53ہزار987مردشامل تھے . میڈیکل کیمپس میں مریضوں کومفت ادویات بھی فراہم کی گئیں .
شرح اموات کو 298سے 200تک لانے کا ہدف
محکمہ صحت کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹرخالد قمبرانی کہتے ہیں کہ سیلاب کے بعد صورتحال گھمبیر ہوگئی ہے البتہ گائناکالوجسٹس اور تربیت یافتہ دہائیوں کی کمی کیلئے محکمہ صحت کوششیں کررہی ہے . آئندہ 5سالوں میں ایل ایچ ویز کی جو خلاء پائی جارہی ہے وہ ختم کی جائیگی کیونکہ اس وقت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں نرسنگ کالجز بنا کر اس میں تربیت فراہم کی جارہی ہے وہ کہتے ہیں کہ تربیت یافتہ ایل ایچ ویز کی سیلاب کے دوران سب سے زیادہ ضرورت تھی .
ماہر امراض نسواں کی کمی کو دور کرنے کیلئے 35گائنا کالوجسٹس کی تعیناتی کی سمری بھیج دی گئی ہے جلد ہی تعیناتی عمل میں لائی جائیگی .
پیپلرزپرائمری ہیلتھ کیئرانیشیٹیو(پی پی ایچ آئی )کے ترجمان کے مطابق سب سے زیادہ ضلع لسبیلہ میں31بنیادی مراکزصحت، جعفرآبادمیں18، پشین میں18،کوہلومیں 17،نصیرآبادمی ں16،خضدارمیں 12، موسی خیل میں10جبکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میںہنہ اوڑک کے ایک بنیادی مرکزصحت متاثر ہوئے ہیں . بارشوں سے متاثرہ 42بنیادی مراکز صحت کی تعمیر ومرمت کرکے فعال کردی گئی ہے جبکہ ڈونرآرگنائزیشن کی مدد سے 12کی تعمیر ومرمت کا کام جاری ہے البتہ متاثرہ بی ایچ یوز کے ساتھ موبائل ٹیموں اور عارضی مراکز صحت میں طبی امداد کا سلسلہ جاری ہے . ترجمان کے مطابق محکمہ صحت کی جانب سے عمارت کی تعمیر محکمہ مواصلات کے ذریعے کی جاتی ہے جس کے بعد وہ پی پی ایچ آئی کے حوالے کی جاتی ہے .
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائٹڈنیشنز پاپولیشن فنڈز(یو این ایف پی اے )کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کنیم کے مطابق خواتین اور لڑکیاںموسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور قدرتی آفات کے بڑھتے ہوئے پھیلائوکاشکار ہیں جب بحران آتا ہے تو خواتین حاملہ ہونا اور بچے کو جنم دینا بند نہیں کرتی ہیں .
بلوچستان اورسندھ صوبوں میں 750کے قریب صحت کی بنیادی مراکز کو نقصان پہنچا ہے . یواین ایف پی اے متاثرہ علاقوں کو ہسپتال کے خیموں، تولیدی صحت کی کٹس اور فوری طور پر ضروری سامان فراہم کر رہا ہے تاکہ صحت کی اہم خدمات جاری رہ سکیں .