پہلے لوگوں کےجوتے سیتاتھا،لیکن پھرباٹاسے کروڑوں روپے کمائے۔۔ جانیں باٹاکے مالک کے بارے میں وہ معلومات جوبہت کم لوگ جانتے ہیں

(قدرت روزنامہ)کامیابی ایک ایسامقام ہے جوکہ کئی مشکل اورسخت سیڑھیوں کوچڑھ کراورراستہ طے کرکے ملتاہے . اس مقام تک پہنچنے میں کئی مشکل اورتلخ واقعات بھی پیش آتے ہیں لیکن کامیاب وہی ہوتاہے جوہمت نہیں ہارتاہے .

آج ہم آپ کوایک ایسی کمپنی اوراس کے بانی کے بارے میںبتائیں گے جو جوتوںکاکاروبار کرتے ہیں . تھامس باٹا جوتوں کے کاروبار کا ایک جیتا جاگتا نام ہے . باٹا کمپنی آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی کامیابی کے جھنڈۓ گاڑے ہوئے ہیں، لیکن اس کامیابی کے پیچھے افسردگی اور ناکامی تھی . 1894 میں تھامس باٹا نے اپنے جوتوں کی کمپنی یعنی باٹا کی بنیاد رکھی تھی، اس سے پہلے وہ مسلسل جدوجہد میں مصرود تھے . تھامس نے اپنی جدوجہد کا آغاز موچی بن کر کیا تھا، وہ مختلف جگہوں پر بطور موچی کام کر چکا تھا . ابتداء میں تھامس نے اپنے کاروبار کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے تھامس نے ملازمین کو بھی رکھا اور ایک دکان بھی بنائی . مگر ابتداء میں بہت مشکلات پیش آئی تھیں . ابتداء میں شروع کیے گئے اس کاروبار میں منافع نہ ہونے کے برابر تھا . لوگ جوتے خریدتے نہیں تھے، بلکہ انہیں ناپسند کرتے تھے . اسی وجہ سے تھامس نے مایوس ہو کر کاروبار بند کر دیا اور ملازمین کو بھی نکال دیا . یہ وہ دن تھے جب تھامس پریشان رہنے لگا، اور اپنے ہنر کے بارے میں سوچنے لگا . انہی دنوں ایک بوڑھے نے تھامس کو پریشان حال دیکھا، بوڑھا تھامس کی پریشانی کو جانچ گیا تھا، وہ سمجھ گیا تھا کہ تھامس ایک باہمت شخص ہے لیکن اسے ایک تھپکی چاہے جو اسے آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرے . بوڑھے کی ایک بات جس نے تھامس کو بہت متاثر کیا کہ آپ سوچیں آپ کا پروڈکٹ مہنگا ہے، جبکہ تم مزدور کو تنخواہ کم دے رہے ہو . اس طرح آپ یہ سوچیں گے کہ میرا پروڈکٹ سستا ہو اور میرے ملازمین کو زیادہ تنخواہ ملے . تھامس باٹا نے یہ کمپنی اپنے خاندان کے نام پر بنائی تھی، جبکہ جوتا سازی تھامس کے خاندان کا پرانا پیشہ ہے جو کہ 1620 سے چلتا آرہا ہے . بوڑھے کی بات پر کو سمجھنے کے بعد تھامس نے ایک بار پھر ہمت سے کا لیا اور اس بار 1894 میں اپنا کارخانہ لگایا . اور یہاں سے تھامس کی کامیابی کی منزل شروع ہوئی . 300 سالوں سے جوتا سازی تھامس کا گھرانہ کرتا آرہا تھا، مگر کسی نے بھی اس پیشے میں جدت اور زمانے کے حساب سے تبدیلی کے بارے میں نہیں سوچا تھا . اس کاروبار کی شروعات میں تھامس کے پاس کُل 10 ملازمین تھے، لیکن ایک سال بعد ہی تھامس قرض دار ہونا شروع ہو گیا تھا، قرض کو کم کرنے اور منافع کے لیے مختلف طریقے اپنائے . تھامس کے جوتوں کی منفرد بات یہ تھی کہ جوتے چمڑے کے ہونے کے ساتھ ساتھ موٹے کپڑے کے جوتے بھی پیش کیے جانے لگے، جو کہ لوگوں میں بےحد مقبول ہو گئے تھے، یہی وجہ تھی کہ تھامس نے ملازمین کی تعداد کی بڑھا کر 50 کر دی تھی . جبکہ تھامس نے پنے ملازمین کی تنخواہ بڑھانے پر بھی توجہ دی، جبکہ انہوں نے 99 روپے کا ہندسہ متعارف کروایا، یعنی جوتوں کی قیمت 99 روپے تھی . حالانکہ 99 روپے اور 100 روپے میں صرف 1 روپے کا ہی فرق تھا، مگر ان کی اس ترکیب نے لوگوں کو 99 روپے کی طرف کھینچا، اور لوگ سمجھے کہ 100 سے 99 روپے کم ہیں . 4 سال میں باٹا کمپنی کا کام اس حد تک بڑھ گیا کہ کمپنی کو مشینوں کی ضرورت پیش آںے لگی . تھامس نے ہمیشہ اپنے کاروبار کو بڑھانے، جدت لانے اور دیگر تاجروں سے مشاورت کرنے کا سوچا کرتے تھے . باٹا کمپنی یورپ ی پہلی جوتا ساز کمپنی تھی، جبکہ 1912 میں تعداد 600 ہو چکی تھی . پہلی جنگ عظیم نے باٹا کمپنی کو بہت فائدہ پہنچایا تھا . ایک اندازے کے مطابق باٹا کمپنی کے ملازمین کی تعداد نوے ہزار سے زائد ہے . جبکہ باٹا کپنی کے بانی تھامس باٹا 1932 میں ہوائی جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے . . .

متعلقہ خبریں