اب سے انہیں اسکول باباچھوڑنے نہیں جائیں گے۔۔۔جانیں ان شہید آفیسرز کی شہادت ،جس نے سب کورلادیا

(قدرت روزنامہ)پاکستان ایک ایساملک ہے جہاں ہرکوئی دہشت گردی کاشکاررہاہے . چاہے پولیس فورس ہویاپھر سرحد پروطن کی حفاظت کرتے جوان ہوں .

ہرکسی نے اپنی جان کانذرانہ پیش کرکے اپنے گھروالوں کواپنے وطن خاطر قربان کرکے خود کواس قوم کے لیے پیش کردیاہے . آج ایسے ہی چند شہید افسران کے بارے میں بتائیں گے جنہوں نے ملک کی خاطر ہرلحاظ سے قربانی دی . (ایس ایچ او عمران عباس)شہید پولیس آفیسر عمران عباس ان شہیدوں میں شامل ہیں جنہیں ان کی فیملی کے سامنے شہید کردیاتھا . عمران عباس ایک فرض شناس آفیسر تھے، جو اپنا کام بخوبی کرتے تھے . عمران کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جبکہ ان کی اہلیہ بچوں کو سنبھالتی ہیں . شہید آفیسر کے بچے اسکول جاتے ہیں لیکن منظر اس وقت سب کے لیے جذباتی ہو گیا جب والد کی شہادت کے بعد بچے اسکول جا رہے تھے اور انہیں اسکول لے جانے سی پی او لاہور احسن یونس خود آئے تھے . بچوں کو والد کے ساتھ اسکول جانے کی اس حد تک عادت ہو گئی تھی کہ اب جب بچے اسکول جا رہے تھے تو والد کو یاد کر رہے تھے، آںکھیں والد کو تلاش کر رہی تھیں، جبکہ تینوں بچوں نے جاتے وقت امی کو تو گلے لگایا ہی مگر اپنے والد کی تصویر کو بھی چوما . جبکہ شہید کے بچوں کا اسکول انتظامیہ نے پرتپاک استقبال کیا تھا . وطن کی خاطر شہید ہونا آسان نہیں ہوتا، وہ بھی جب جوان کی فیملی بھی موجود ہو . ڈاکٹر ماہ نور فرزند:پاکستان ائیر فورس کی جوان آفیسر لیفٹینیٹ ڈاکٹر ماہ نور فرزند بھی کورونا وائرس کے باعث ہفتہ کے روز انتقال کر گئی تھیں . ڈاکٹر ماہ نور پاکستان ائیر فورس کی نوجوان پائلٹ آفیسر تھیں، جبکہ ان کی صلاحیتوں کی بنا پر انہیں بے حد کامیابیاں ملی تھیں . ڈاکٹر ماہ نور اور ان کے والد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، جس کے بعد قرنطینہ میں چلے گئے تھے . لیکن ماہ نورفرزند 8 ماہ کی حاملہ تھیں . جبکہ والد بھی اس وقت آئی سی یو میں ہیں . ڈاکٹر ماہ نور بھی میڈیکل فیلڈ کے ان جاںبازوں کے ساتھ شامل تھیں جو کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑ رہےتھے اور اپنی جان کا نظرانہ پیش کر دیا تھا . ڈاکٹر ماہ نور رواں ہفتے اپنے 8 ماہ کے بچے سمیت شہید ہو گئی تھیں . ماہ نور کے شوہر کا کہنا تھا کہ ماہ نور مجھے فخر ہے کہ تم میری اہلیہ تھی . میں تمہارے قابل نہیں تھا . تم ایک فرشتہ تھی، جو پیار تمہارا میرے لیے تھا، وہ پیار مجھے کسی اور سے نہیں ملا . تم میرے جینے کی وجہ بنی، میرے آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کی وجہ تم ہی تھی، جب میں اکیڈمی میں تھا تو اسی امید سے کلینڈر پر تاریخیں گنتا تھا کہ کب میں تم سے ملوں گا . تم ہی میرے جینے کی وجہ تھی . کیپٹن بلال ظفر شہید:کیپٹن بلال ظفر شہید بھی ان شہید جوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خیال کا اظہار اپنی ماں کے سامنے کیا تھا کہ ماں ایک دن پاک آرمی کے جوان میری لاش کو پاکستانی پرچم میں لے کر آپ کے پاس لائیں گے . جس پر ماں حیرت زدہ ہو کر کہنے لگیں کیا کہہ رہے ہو بلال؟کیپٹن بلال شہید 4 بہنوں کا سب سے چھوٹا بھائی تھا، جنہوں نے سینٹ پول اسکول سے میٹرک کیا . کیپٹن بلال شہید کی والدہ بتاتی ہیں کہ بلال بہت ہی نرم گو اور ملنسار شخصیت کا مالک تھا، ہمیشہ مسکرا کر ہر بات کا جواب دیتا تھا . والدہ کا کہنا تھا کہ ایک دن بیٹی کے سسر نے فون کیا کہ ہم آج آپ کی طرف ناشتہ کرنے آرہے ہیں، جس پر میں نے سوچا کہ فوجی افسران تو اتوار کے روز گھر پر ہی ناشتہ کرتے ہیں پھر . . . . . یہ کہتے ہوئے بلال شہید کی ماں کی آواز میں نرمی آگئی اور وہ بیٹی کے سسر سے کہنے لگیں کہ سچ بتائیں کیا بلال شہید ہو گیا ہے؟یہ جملہ تھا جسے ادا کرتے ہوئے خود بلال شہید کی والدہ بھی نرم ہوگئیں . بیٹی کے سسر نے کہا کہ بلال کو گولی لگی ہے اور سی ایم ایچ اسپتال منتقل کیے گئے ہیں . والدہ کا کہنا ہے کہ بلال نے اپنی شہادت سے پہلے ہی سب کو بتا دیا تھا کہ تین دن سے زیادہ کوئی سوگ نہیں کرے گا، میرے جانے کے بعد میرے والدین کا خیال رکھنا اور میرے دفنانے کے چند روز میں ہی والدین کو گاؤں سے راولپنڈی لے آنا . کیپٹن بلال شہید کے والد کہتے ہیں کہ میں بطور والد بہت پریشان تھا کہ یہ لڑکا شہید ہوگا، خوشی بھی تھی مگر والد کا غم اپنی جگہ ہے . والد کہتے ہیں کہ شہادت سے ایک رات پہلے بلال نے یونیفارم تیار کر کے دیا تھا کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میرے کوفن کے ساتھ یہ یونیفارم بھی دینا . جبکہ بلال کے بھائی کا کہنا ہے کہ جس طرح بلال سب کاموں سے متعلق مجھے بتا رہا تھا اور آخری وصیت کر رہا تھا، مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ بلال اب واپس نہیں آئے گا . .

متعلقہ خبریں