مطیع اللہ مطیع
حاجی دین محمد بلوچستان کے ضلع نصیرآباد میں زمینداری کے شعبے سے منسلک ہے وہ ہر سال تقریبا100ایکڑ پر چاول اورگندم کی کاشت کرتے ہیں سال 2022 کے دوران مون سون بارشوں کی وجہ سے چاول کی کاشت سیلاب میں بہہ گیا جبکہ گندم کی کاشت میں زمین پر پانی کھڑے ہونے کی وجہ سے وقت لگااور سیزن کاآدھا مہینہ گزر گیا .
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کے بعد نصیرآباد ڈویژن میں زمین پرپانی کھڑے ہونے کی وجہ سے گندم کاشت کرنے میں وقت لگا جب گندم کا سیزن آتا ہے تو عین سیزن میں گندم کی کاشت سے بہترین پیداوار ہوتی ہے لیکن اگر کاشت میں 10سے 20دن تک وقت لگ جائیں تواس کا پیدوار پر فی ایکڑ 5سے 8من گندم کی کمی کاسامنا ہوتاہے .
وہ کہتے ہیں کہ گندم کی کاشت کایکم نومبر سے 25تا یکم دسمبر تک سیزن ہوتاہے گزشتہ سال کے بارشوں کے بعد ہماری زمینوں پر پانی کھڑا تھا اوراب یہاں نمی بہت زیادہ ہے گندم کی کاشت ہے بعض جگہوں پر ان کا رنگ پھیلا پڑ گیاہے .
محکمہ زراعت کے مطابق بلوچستان میں سال 2022-23 کے دوران 5لاکھ 50ہزار ہیکڑ پر گندم کی کاشت کا ہدف رکھاگیاہے جس میں 4لاکھ 74ہزار740ہیکڑ پر گندم کی کاشت کی گئی ہے اور ان میں 4لاکھ 62ہزار226ہیکڑ ایرگیٹڈ جبکہ 12ہزار514ان ایرگیٹڈ فصل ہے . نصیرآباد میں86ہزار260ہیکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے . پاکستان بیوروآف اسٹیٹسٹکس کے مطابق70فیصد زرعی آبادی والے پاکستان نے گزشتہ دو سالوں میں 7لاکھ 28ہزار 848میٹرک ٹن گندم امپورٹ کی ہے جس کی لاگت 2لاکھ 79ہزار 223امریکن ڈالرز ہے .
زمیندار حاجی دین محمد کہتے ہیں کہ غربت کی وجہ سے ہمارے ہاں زمیندار اپنی زمین کو کھاد ودیگر کی اس طرح فراہمی نہیں ہوتی کہ ایک بہترین پیداوار حاصل ہوسکے نصیرآباد میں ٹماٹر کا سیزن ختم ہونے کے بعد لوگوں نے بڑے پیمانے پر گندم لگایاہے اور امید ہے کہ اس بار بہترین پیداوار ہوگی . مون سون بارشوں کی وجہ سے ٹماٹر کا سیزن چلا گیا جبکہ گندم کی کاشت میں وقت لگا .
گندم کی بہترین پیداوار کیلئے کھاد ،یوریا ودیگر کی ضرورت
ماہرین کے مطابق ایک ایکڑ سے 80 من گند م پیدا کرنے لئے 80 کلو نائٹروجن ، 32 کلو فاسفورس اور 91 کلو پوٹاش استعمال ہوتے ہیں . یعنی گندم کی اچھی پیداوار کے لئے فاسفورس کے بجائے نائٹروجن اور پوٹاش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے . در میانی زمینوں میں نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش بالترتیب 25-35-46 کلوگرا م فی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے . کھاد کی یہ مقدار دو بوری یو ریا ، ڈیڑھ بوری ٹی ایس پی اور ایک بوری ایس اوپی سے پوری کی جاسکتی ہے . لیکن کمزور زمینوں میں 25-46-64 کلو گرام فی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے . کھاد کی یہ مقدار دو بوری یو ریا، دو بوری ڈی اے پی اور ایک بوری ایس او پی سے پوری کی جاسکتی ہے .
سیکرٹری زراعت امید علی کھوکھر پرامید ہے کہ محکمہ زراعت کی جانب سے مقررہ ہدف کے حصول اور گندم کی کاشت کی بہترین پیداوار کیلئے زمینداروں کو مقررہ وقت پر یوریا اور ڈی اے پی کھاد کی فراہمی کی جائیگی اس سلسلے میںوفاق کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ گندم کے حوالے سے خود کفیل بننے کیلئے مقررہ ہدف حاصل کیاجاسکے .
گندم پاکستان میں کاشت ہونے والی اہم غذا ئی فصلات میں سے ایک فصل ہے . پاکستان میں ربیع کے موسم میں گندم تقریبا 9 ملین ہیکڑ پر کاشت کی جاتی ہے جو کہ کل کاشت شدہ رقبہ کا تقریبا 80 فیصدبنتا ہے . پاکستان رقبہ اور پیداوار کے حوالے سے دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے . نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا گرین بیلٹ ہے جہاں گندم کے علاوہ چاول،سرسوں،سورج مکھئی،سبزی جات پیاز،ٹماٹر، بینگن،بینڈی ویگر کاشت کئے جاتے ہیں نصیرآباد بلوچستان میں گندم کی ڈیمانڈ کاایک بڑا حصہ پورا کرتاہے .
بلوچستان:سیلاب سے نصیرآبادڈویژن میں30فیصد اسٹاک خراب
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن بلوچستان چیپٹر کے سابق چیئرمین حاجی عصمت اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے مون سون بارشوں سے نصیر آباد ڈویژن میں اسٹاک سیلاب و بارش کی وجہ سے 30 فیصد خراب ہو گیاآئندہ فصل بہترین ہوگا جو پہلے سے زیادہ ہوگا لیکن کیا زیادہ فصل سے بلوچستان خودکفیل ہوگا؟اس سلسلے میں جب سیکرٹری زراعت امید علی کھوکھر سے رابطہ کیاگیا توانہوں نے کہاکہ پاکستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتا ہے بشرطیکہ بلوچستان کی 3.5 ملین ہیکٹر قابل کاشت اراضی کو پانی کی دستیابی، سیلابی پانی کو روکنے، سولر ٹیوب ویلوں اور فارم مشینری کی فراہمی اور عمل درآمد کے ذریعے زیر کاشت لایا جا سکے .
بلوچستان: فی ایکڑ پر 23سے25من گندم کی پیداوار ہوتی ہے
محکمہ زراعت کے ڈائریکٹرایگریکلچر ریسرچ ڈاکٹرعصمت اللہ تارن کہتے ہیں کہ اگر ہم نے گندم کے حوالے سے 100فیصد خودکفیل ہوناہے تو گندم کی پیداوار کو بڑھانے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے اس وقت زمیندار کے فی ایکڑ گندم کی 23سے25من پیدوار ہوتی ہے اگر حکومتی سپورٹ، زمینداروں میں آگاہی اور مینجمنٹ کی بہتری ہوں تو اس پیداوار کو50من فی ایکڑ تک پہنچاسکتے ہیں . بلوچستان اس وقت 75فیصد گندم کے حوالے سے خودکفیل ہے اس کو 100فیصد بھی خود کفیل بنایاجاسکتاہے اہم عنصر مینجمنٹ کی ہے . کھاد ودیگر کی بروقت فراہمی یقینی بنانے ،شعور وآگاہی جیسے اقدامات کی ضرورت ہے .
بلوچستان: گندم کی سالانہ ضرورت ایک کروڑ52لاکھ بوری
حاجی عصمت اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ بلوچستان کو سالانہ ایک کروڑ 52 لاکھ گندم بوری ضرورت ہے ماہانہ 12 لاکھ 60 ہزار بوری ہے، حکومت بلوچستان سیزن میں سالانہ 10 لاکھ گندم بوری ضرورت ہے . یہاں پیداوار ایک کروڑ 10 لاکھ پیداوار ہوتی ہے جس میں 10 لاکھ بوری بلوچستان حکومت ریزور کیلئے خریدتی ہیں جو بحران میں استعمال ہوتا ہے . جبکہ فلور ملز 40 لاکھ بوری گندم پنجاب اور سندھ سے اوپن مارکیٹ میں خریدتے ہیں .
فلور ملز اوپن مارکیٹ کے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق گندم خریدتی ہیں بلوچستان کے سندھ و پنجاب سے گندم کی قیمت میں 500 سے 1000 فی بوری گندم اثرات مرتب ہوتے ہیںجس کی اہم وجوہات وجوہات ٹرانسپورٹ اخراجات اور معیار بہتر ہوتی ہے ،گندم کی پیداوار کے سیزن میں توریٹ کم ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے .
سیزن میں حکومت بلوچستان 10 لاکھ بوری گندم کی خریداری کیلئے دفعہ 144 نافذ کرتی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کی گندم مقامی مارکیٹ کی بجائے دیگر صوبوں کو اسمگل ہوتا ہے جس کا اثر قیمت پر پڑتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان حکومت گندم کی دیگر صوبوں کو اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے صوبائی بارڈرز پر اقدامات اٹھائے تاکہ گندم کی ترسیل بلوچستان کو ہوں اور یہاں لوگوں کو آٹا کم قیمت پر ملے .
حکومت بلوچستان سیزن میں 10 لاکھ گندم بوری کی بجائے 30 لاکھ بوری گندم خریداری کریں جس کا فائدہ ہوگا کہ بحران میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگاکیونکہ آپ کے پاس گندم محفوظ ہوگی .
گندم کومحفوظ بنانے کیلئے سائلوز نہیں ہے
گندم کو محفوظ بنانے کیلئے سائلوز کی ضرورت ہے لیکن وہ بلوچستان میں نہیں ہے جس پرڈاکٹرعصمت اللہ تارن نے بلوچستان میں سائلوز نہ ہونے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچستان کے گوداموں میں گندم خراب ہورہی ہے نصیرآباد میں ہزاروں بوری گندم سائلوز نہ ہونے اور بارش وسیلاب کی وجہ سے خراب ہوکر پانی میں بہہ گئے . گندم کو محفوظ بنانے کیلئے سائلوز کی ضرورت ہے .
بلوچستان کے زمیندار گندم کی بہترین فصل کیلئے پرامید
زمیندارایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری حاجی عبدالرحمن بازئی پرامید ہے کہ گزشتہ سال کے مون سون کی بارشوں کے بعد گندم کی بہترین پیداوار ہوگی لوگوں نے بڑے پیمانے پر خشکابے والے گندم کاشت کئے ہیں .
اگر چہ سیلاب سے اراضیات متاثر ہوئی ہیں لیکن زیادہ کاشت کی وجہ سے بہترین پیداوار ممکن ہے اور اس بار حکومت کی جانب سے بھی بروقت بیج مفت فراہم کی گئی ہے ممکن ہے اگر اس بار فائدہ نہ ملے تو آئندہ اس کافائدہ ممکن ہے البتہ اگر بیج بروقت فراہم نہیں کی گئی ہے لیکن سیلاب سے لوگ متاثر ہوئے ہیں تو آئندہ سال گندم کی کاشت یقینی بنائیں .
حکومت بلوچستان نے 12لاکھ ایکڑ گندم کاشت کرنے کا پروگرام بنایاہے جبکہ زمینداروں نے اپنے طورپر بھی کاشت کی ہے . اگر 12لاکھ ایکڑ گندم کاہدف پوراہوجائے توامید ہے کہ بلوچستان ایک حد تک خود کفیل ہوجائیں . نصیرآباد ڈویژن میں بعض علاقوں میں پانی موجود ہے لیکن دوسری طرف سیلاب سے جو فصل تباہ ہوئی ہے تو گندم کی فصل بہترین ہوگی .
صوبائی وزیر زراعت میر اسداللہ بلوچ کہتے ہیں کہ سیلاب سے زمینداروں کو3سو ارب روپے کے نقصانات کاسامنا کرناپڑاہے جس کی وجہ سے زمینداروں اور کسانوں میں بیج خریدنے کی سکت کمزور پڑ گئی صوبائی حکومت نے اپنے طورپر 4ارب روپے کے بیج زمینداروں میں تقسیم کئے ہیں زراعت کی بہتری اور گندم کی کاشت کو بہتر بنانے کیلئے محکمے کو جدید خطوط پراستوار کیاجارہاہے . ہمارے وسائل ناکافی ہے بلوچستان رقبے کے لحاظ سے وسیع جبکہ وسائل کم ہے .
بلوچستان میں سیلاب سے خریف کی 700,000 ایکڑ اراضی پرمشتمل فصل متاثر
صوبائی سیکرٹری زراعت امید علی کھوکھر کہتے ہیں کہ گزشتہ سال مون سون کے غیرمعمولی بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان میں خریف کی 700,000 ایکڑ اراضی پرمشتمل فصل متاثر ہوئی لیکن محکمہ زراعت نے مذکورہ زمین کوگندم کی کاشت کیلئے بروئے کار لایاہے ،گزشتہ صوبے میں گزشتہ سال 1.2 ملین ایکڑ پرکاشت کی گئی گندم سے 1.2 ملین ٹن گندم کی پیداوار ہوئی . محکمہ زراعت اس سال 1.4 ملین ایکڑ اراضی پرگندم کی کاشت کیلئے کوششیں کررہی ہے . اس سلسلے میں سیلاب سے متاثرہ کسانوں میں 3لاکھ 62ہزار گندم کی اعلیٰ پیداوار کیلئے تصدیق شدہ بیج تقسیم کئے گئے ہیں . 400ملین فنڈز سے اضافی اراضی کو زیر کاشت لانے کیلئے 2لاکھ گھنٹے بھی فراہم کئے گئے ہیں .
امید علی کوکھر نے کہاکہ زراعت کوفروغ اور زمینداروں کی سہولت کیلئے حکومت بلوچستان 50فیصد سبسڈی پر 1000گرین ٹریکٹرز تقسیم کررہے ہیں رواں سال 120ٹریکٹرز تقسیم کئے جائیںگے . گندم کی پیداوار کوسیلاب سے بچا نے کے لیے محکمہ زراعت بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے زرعی اراضی کوبنڈلز، ڈائیکس اور فلڈ ڈائیورشن ڈھانچے کی تعمیر کررہی ہے جس کے مثبت نتائج برآمدہونگے .