آنکھوں سے اوجھل شازور جھیل کا مشکل مگر یادگار سفر

(قدرت روزنامہ)کنکریٹ کے جنگلوں اور بے ہنگم ٹریفک کے شور و غل سے تنگ کوہ نورد اور آوارہ گرد اکثر فطرت کے حقیقی رنگ دیکھنے کی چاہ میں بلند پہاڑوں، وادیوں، سبزہ زاروں اور ریگزاروں کا رخ کرتے ہیں . نظارہ قدرت سے تسکین اور طمانیت کا حصول چاہنے والوں کے لیے دلچسپ سفر کا احوال پیشِ خدمت ہے .

وادئ کمراٹ، اس کے گھنے جنگل میں بہتا 55 کلومیٹر طویل دریائے پنجگوڑہ، گرد و نواح کے بلند و بالا پہاڑ اور وادی میں جھیلوں و آبشاروں کے دلکش مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں . وہاں کی یہی خوبصورتی ہمیں بار بار اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس بار ہم اپنی 7 رکنی ٹیم کے ساتھ پشاور سے کمراٹ کے لیے روانہ ہوئے . ہم اپنے مقامی دوست ضمیر خان کے حجرے میں ایک سرد رات میٹھی نیند سونے کے بعد پشاور سے کمراٹ تک کے سفر کی تھکاوٹ دُور کرچکے تھے . یہ سیزن کا آغاز تھا اور کوہ نوردوں کی یہ 7 رکنی ٹیم شہر کی مشینی زندگی سے کچھ وقفہ لینے کی خاطر چند دن دریائے پنجگوڑہ کے کنارے گزارنے اور وادئ کمراٹ و چترال بارڈر پر واقع شازور جھیل کی خوبصورتی سمیٹنے آئی تھی . جیپ اور دیگر مطلوبہ ساز و سامان کا انتظام کرنے کے بعد ہم کمراٹ کے مشہور سیاحتی مقام 'دوجنگا' کی طرف روانہ ہوئے . شیر بہادر نامی ہمارے ڈرائیور جیپ اسٹارٹ کرنے سے پہلے اعلان کرچکے تھے کہ، 'صاحب ہم اس علاقے کے چَپے چَپے سے واقف ہیں . یہاں کا ہر ایک باسی ہمیں جانتا ہے . ہم آپ کو منزل پر ایسے پہنچائیں گے جیسے کسی زمانے میں گھڑسوار پہنچ جایا کرتے تھے . اور ہاں صاحب ہم آپ کو اپنے ہاتھ سے مچھلی پکڑ کر کھلائیں گے' . کچھ ساتھی شیر بہادر کے اعلان سے بہت خوش تھے کہ چلو کم از کم اس ٹرپ میں رات کو دریائے پنجگوڑہ کے کنارے ٹراؤٹ مچھلی کی لذت سے تو محظوظ ہوں گے . کچھ دوست اس لیے بھی شادمان نظر آئے کہ چونکہ ڈرائیور ان تمام راستوں سے واقف ہے لہٰذا شازور جھیل تک متوقع وقت سے پہلے پہنچ جائیں گے . مگر میں شیر بہادر کی شخصیت کو پرکھ چکا تھا . دراصل شیر بہادر صرف گفتار کا غازی اور باتوں کا دھنی تھا . بہرحال ہم ان کی باتوں اور سفر کو انجوائے بھی کر رہے تھے . دریائے پنجگوڑہ—تصویر: عظمت اکبر کمراٹ اور چترال کے بارڈر پر واقع شازور جھیل کا ایک منظر—عظمت اکبر شیر بہادر شاید اس بات سے انجان تھے کہ ان کی جیپ میں بیٹھے کوہ نوردوں نے پاکستان میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے . جنگل میں کچی سڑک پر ہماری جیپ دوڑ رہی تھی اور فاصلہ کم کرتی جا رہی تھی . یوں جنگل کا سلسلہ پیچھے رہ گیا اور ہماری جیپ سرمئی میدان میں داخل ہوگئی . اس میدان کو مقامی لوگ سرمئی کا میدان پکارتے ہیں اور یہاں ہر سال کمراٹ فیسٹیول منعقد ہوتا ہے . گزرے وقتوں میں یہاں ایک چھوٹی جھیل ہوا کرتی تھی . 'مئی' یا 'مہی' . مقامی کوہستانی زبان 'گاوری' 2 دریاؤں کے درمیان موجود اس خشک مقام کو کہتے ہیں جہاں پر تالاب ہو اور درمیان میں زمین کا خشک ٹکڑا بھی ہو . سرمئی کے اس میدان میں سوات کی مہوڈھنڈ جیسی ایک خوبصورت جھیل تھی جو بعدازاں سیلابی ریلے کی نذر ہوگئی . اب اس میدان پر جشن کمراٹ اور کمراٹ فیسٹیول جیسے میلے سجتے ہیں . اس میدان کے آخری حصے پر دائیں جانب بلندی سے گرتی چھوٹی آبشار پر میری نظر پڑی . تھل سے 'کالا پانی' (چشمہ) کی طرف جاتے ہوئے یہ چھوٹی آبشار 'لال گاہ' (سراج) آبشار سے پہلے آتی ہے . میں اب تک لگ بھگ 50 مرتبہ وادئ کمراٹ کی سیر کرچکا ہوں لیکن ہمیشہ اس آبشار سے نظریں چُرا کر آگے بڑھ جاتا ہوں . مگر اس بار یہ روایت توڑنے کا فیصلہ کیا . میں نے شیر بہادر کو آبشار کے پاس جیپ روکنے کے لیے کہا . شیر بہادر کے مطابق اس آبشار کا مقامی نام 'کوتگل' آبشار ہے اور سرمئی میدان کے بعد آنے والے اس علاقے کو وادی کے باسی 'کوتگل' پکارتے ہیں . اگرچہ یہ آبشار دُور سے چھوٹی نظر آتی ہے لیکن قریب جانے پر اس کی قدامت حیرت میں ڈال دیتی ہے . کوتگل آبشار کے پاس چند یادگار لمحات گزارنے کے بعد ہم ایک بار پھر کالا پانی کی کچی سڑک پر رواں دواں تھے . تھوڑی دیر بعد کوتگل کی دوسری آبشار نے ہمارا استقبال کیا، جو 'لال گاہ' اور 'سراج آبشار' کے نام سے مشہور ہے . وادئ کمراٹ آنے والے اس آبشار کا نظارہ کرنے ضرور رکتے ہیں . . .

متعلقہ خبریں