بلوچستان میں صحافی ہمیشہ عدم تحفظ کا شکاررہے ، اس لیے یہاں صحافت تقریبات تک محدود ہوچکی ہے

رپورٹ : عبدالکریم
2021 کی بات ہے کہ ارگنائزشن آف اسلامک یوتھ کے سربراہ حماد کاکڑ نے مشہور ٹک ٹاکر حریم شاہ کو خیرسگالی سفیر کے طور پر کوئٹہ مدعو کیا تھا . اس دوران مذکورہ تنظیم کے سربراہ حماد کاکڑ نے سیٹزن جرنلسٹ سیف الرحمن جعفر کو بھی حریم شاہ کی انٹرویو کرنے کیلئے نجی ہوٹل طلب کیا تھا .


سیف الرحمن جعفر کے بقول انٹرویو سے قبل انہوں نے کچھ غیرمہذب حرکات دیکھیں جو انہوں نے فیس بک پرلائیو آکر رپورٹ کیں اور وہ ویڈیو وائرل ہوگئی جس کے بعد انھیں حمادکاکڑ کی کال موصول ہوئی اور پہلے پہل انہیں حماد نے گالیاں دیں اور پھر کہا کہ کل ایف آئی اے دفتر میں ملتے ہیں میں آپ کے خلاف ایف آئی آر ابھی درج کرواتا ہوں جس سے آپ کی صحافتی زندگی ختم ہوکر رہ جاگئی .
جعفر نے بتایا کہ اس کے بعد ایک مشترکہ دوست نے ان سے رابطہ کیا اور ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے ذریعے ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے نہیں دی .
جعفر کے بقول اس طرح کے ناخوشگوار معاملات سیٹزن صحافیوں کیلئے کافی مشکلات پیدا کرتے ہیں ، کیونکہ ان کو اپنے گھریلوں معاملات ،زاتی زندگی اور معاشرے کو بھی دیکھنا ہوتا ہے . اس لیے میرے لیے بھی ایک دم کافی مشکلات کھڑی ہوں گئیں . جس کی وجہ سے میں نے کوئٹہ میں صحافت چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور لاہور منتقل ہوگیا .
دوسری طرف حماد کاکڑ کہتے ہے کہ سیف الرحمن جعفر نے ان کے خلاف ویڈیو سوشل پر وائرل کی جس میں بے بنیاد الزامات لگائے گئے تھے ، اور نہایت ہی غیر اخلاقی زبان استعمال کی گئی تھی . جس پر سیف الرحمن کو ویڈیو حذف کرنے کا کہا حذف نہ کرنے کی صورت میں آئین پاکستان کے مطابق قانونی کاروائی کیلئے تیار رہنے کا کہا تھا .
حماد کاکڑ کے بقول : انہوں نے ہمیشہ ان پر لگے الزامات کا جواب قانونی طور پر دیا ہے . صحافیوں کو خبر دینے سے پہلے تصدیق کردینا چاہیے یہ صحافتی اصول ہیں . الزامات سے صحافیوں کی ساخت متاثر ہوجاتی ہیں .
بات صرف سیف الرحمن تک محدود نہیں ہے بلکہ سرکاری طور پر بھی صحافیوں کو خاموش رہنے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں .
دسمبر 2022کو بلوچستان کے ضلع گوادر میں حق دو تحریک کے کارکنان احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے اورگوادر کے صحافی ان کے مظاہروں کو کور کررہے تھے .
صوبائی حکومت نے گوادر اور اس کے گردونواح میں موبائل سروس اور انٹرنیٹ سگنل بند کردیے تھے . لیکن مقامی صحافی پھر بھی متواتر مظاہروں کو کوریج دے رہے تھے . ان صحافیوں میں روزنامہ جسارت سے وابستہ حاجی عبید اللہ بلوچ بھی تھے . جن کو 29 دسمبر 2022 کو حق دو تحریک کے کوریج کے پاداش میں رات کے تین بجے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے تین بچوں سمیت گرفتار کرکے ڈی آئی جی آفس منتقل کیا گیا .
حاجی عبیداللہ بلوچ کے بقول : گرفتاری کے دوران میرے ہاتھ باندھ دیے گئے مجھے جب گاڑی میں ڈالا گیا تو میرے چشمے ٹوٹ گئے ، اور جب گاڑی سے اتار رہے تھے تو اس دوران ان کو زدکوب کیا گیا .
عبیداللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ پولیس نے میرے گھر کے دوازے توڑ دئے تھے اور مجھے گالیاں دی اور مجھے کہا گیا کہ آپ ویڈیوز بہت بناتے ہوں .
حاجی عبیداللہ کے مطابق، صبح گوادر پریس کلب کا صدر پورے کابینہ کے ساتھ آئے اور انہیں یقین دہانی کروائی گئی کہ ان کو چھوڑ یں گے . مگر انک کے بچوں کوتو چھوڑدیا گیا لیکن انہیں دیگر قیدیوں کے ساتھ رات کے بارہ بجے کے قریب تربت کے سینٹرل جیل منتقل کیا گیا .
عبیداللہ کا کہنا تھا کہ ان پر کوئی ایف آر درج نہیں کی گئی تھی لیکن پھر بھی ان کو پانچ دن تک حراست میں رکھا گیا پولیس نے ان سے حق دو تحریک کے رہنما ماجد بوہر کے بابت تفتیش کی جو ان کا چچازاد کزن بھی ہے .
بلوچستان یونین اف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری منظوررند کے بقول حاجی عبیداللہ رند کوامن عامہ کی بحالی کے قانون (ایم پی او ایکٹ) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا . ایم پی او کے سیکشن 3 کے مطابق کہتا ہے: "حکومت کسی بھی شخص کو عوامی تحفظ یا امن عامہ کی بحالی کے لیے کسی بھی طرح کے منفی کام کرنے سے روکنے کے لیے، اس کی گرفتاری کر سکتی ہے اور 1 ماہ کے لیے نظربند بھی کیا جاسکتا ہےــ .
ان کے بقول حکومت نےحاجی عبیداللہ بلوچ کی گرفتاری کی وجہ ان کےکزن ماجد بوہر کا ان کے گھر میں موجودگی بتائی گئی جو حاجی عبیداللہ سے موٹرسائیکل لینے آیا تھا . منظور رند کے بقول حاجی عبیداللہ نے ماجد کو موٹرسائیکل نہیں دی تھی .
بول نیوز کے کوئٹہ بیورو کے ایکٹنگ بیورو چیف محمد غضنفر کہتے ہیں کہ جب ہم کوئی خبر دیتے ہے تو دونوں جانب کا موقف شامل کرتے ہے ، مگر اکثر اوقات خبر جس کے خلاف جارہی ہوتی ہے تو وہ اپنا موقف نہیں دیتے اور جب خبر شائع ہوکر آ جاتی ہے تو وہی شخص مختلف ذرائع سے دباو ڈالنے کی کوشش کرتے ہے یا پھر خبر سے متعلق جب صحافی موقف مانگتے ہے تو وہ سئینر صحافیوں یا پھر ادارے کے بیوروچیف یا ایڈیٹر کے ذریعے منع کرنے کی کوشش کرتے ہے ، اور اگر تب بھی خبر لگ جائے تو کورٹ اور ایف آئی آر اغیرہ کی دھمکی دیتے ہیں .
غضنفر کہتے ہے ان کے ساتھ دو بار ایسے واقعات پیش آئے . ایک واقعے کی ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہے کہ انہوں نے ایک ادارے میں کرپشن پر سٹوری کی جسکے بعد میرے ایک سئینر کے ذریعے خبر روکنے کیلئے دباو ڈالا گیا لیکن میں نے خبر نہیں روکی . جب خبر چل گئی تو مجھے عدالت میں جانے کی دھمکی دی جس پر میں نے کہا شوق سے جائے میرے پاس خبر کی متعلق تمام ثبوت موجود ہے جس کے بعد وہ شخص خاموش ہوا .
غضنفر سمجھتے ہے کہ بلوچستان میں صحافی ہمیشہ عدم تحفظ کے شکار رہے ہیں . صحافی تنظمیں اس بابت اپنا کردار ادا کریں وہ حکومت کو پابند بنائیں کہ وہ صحافیوں کی تحفظ ان کے مسائل کے حل کیلئے حکومتی سطح پر ایک علیحدہ سیل قائم کرے جہاں صحافی ان کو خبر کے مد میں ملنے والی دھمکیوں کی شکایت کی اندارج ہو اور دھمکیاں دینے والے افراد کے خلاف سنجیدہ کاروائی ممکن ہو .
سہیل بلوچ روزنامہ الجزیرہ کوئٹہ کا ایڈیٹر ہے وہ سمجھتتے ہے کہ بلوچستان جو کہ ایک قبائلی صوبہ ہے . یہاں صحافیوں کیلئے کام کرنا بیحد مشکل ہے، یہاں سے ہارڈ خبر دینے سے پہلے صحافی ہزار بار سوچتا ہے کیونکہ اسے خبر کے بعد کے اثرات کا مکمل طور پر اندازہ ہوتا ہے . اور بہت سے صحافیوں نے اس کے منفی اثرات کا سامنا بھی کیا ہے .
سہیل بلوچ کہتے ہے یہ دھمکی دینا تو چھوٹی بات ہے یہاں بڑے لوگوں کے کارندے صحافیوں ، اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے دفاتر میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی مرضی کی خبر بنانے کا کہتے ہیں . صحافی میں نہ کہنے کی جرت نہیں ہوتی کیونکہ نہ کہنے کی صورت میں ارشاد مستوئی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقع کا خوف اسے لاحق رہتا ہے .
سہیل بلوچ کے بقول : بلوچستان میں صحافت تقریبات اور واقعات تک محدود ہوچکا ہے یہاں کے بنیادی مسائل پر بات بہت محتاط ہوکر کیا جاتا ہے جو کہ یہاں کی صحافیوں کی مجبوری بھی ہے .
بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری مںظوررند یہ قبول کرتے ہے کہ بلوچستان میں صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہے ، اور وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہے کہ یہاں صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے . ان کے بقول اب ب بھی کوئٹہ کے مختلف تھانوں میں دس بارہ سال پہلے کے ایف آئی آر موجود ہے . ان کے بقول یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے . قانونی معاملات کو جواز بناکر صحافیوں کے کام میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کیجاتی ہے . اور دوسری اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ صحافیوں کو براہراست دھمکیاں دی جاتی ہیں .
منظور رند کے سمجھتے ہے کہ تربیت کا فقدان بھی صحافیوں کے کیلئے مشکلات پیدا کرتا ہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو کم تربیت یافتہ صحافی ہے ان وہ خبر کو بیلنس نہیں کرتے خاص کر سیٹزن جرنلسٹ جس کی وجہ ان صحافیوں کے خلاف کاروائی ہوتی رہتی ہے .
منظور رند کہتے ہے کہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے ساتھ صحافیوں کے خلاف درج کی جانے جانے والے ایف آئی آر کے اعدادوشمار موجود نہیں ہیں .
منظور رند سمجھتے ہے کہ حکومت کو صحافیوں کی تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے اور صحافیوں کے حقوق کے لیےقانون سازی کی بھی ضرورت ہے . جس طرح وفاق اور سندھ میں جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی قانون سازی کی جائے . صحافیوں کے تحفظ بل کا ڈرافٹ بلوچستان یونین اف جرنلسٹ نے فریڈم نیٹ ورک اور حکومت کے تعاون سے تیار کرلیا ہے ، اس پر پیش رفت ہورہی ہے ہمیں کچھ بہتری کی امید ہے .

. .

متعلقہ خبریں