آصف زرداری بلوچستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی سے اتحاد میں اختر مینگل ہمارا ساتھ دیں، جام کمال

لسبیلہ (قدرت روزنامہ) سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ بلوچستا ن عوامی پارٹی کو اپنے ہی اندر کے لوگوں سے نقصان ہوا ہے اس وقت بی اے پی تقریباً بکھر چکی ہے پارٹی کا مرکزی دفتر تک بند ہو چکا ہے اور بی اے پی کے کئی ممبران اسمبلی اور دیگر اہم شخصیات جو صوبے میں اپنا ووٹ بنک رکھتے ہیں وہ پارٹی چھوڑ کرپیپلزپارٹی میں شامل ہو چکے ہیں آصف علی زرداری ایک بلوچ ہونے کے ناطے بلوچستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں انکی آصف زرداری سے ملاقات پر کچھ لوگوں کیلئے تشویش کا باعث ضرور بنی ہے لسبیلہ اور حب میں انکے گروپ کا نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی سے آئندہ کے عام انتخابات کے حوالے سے الائنس ہوا ہے انکی خواہش ہے کہ جے یو آئی بھی ساتھ دے اس حوالے سے وہ عنقریب جمعیت کے قائد مولانا فضل الرحمن اور مولانا واسع سے بھی ملاقات کریں گے وہ چاہیں گے کہ سردار اختر مینگل بھی انکا ساتھ دیں و ہ گزشتہ روز حب آمد پر معروف بزنس مین بلڈرپیپلزپارٹی کے رہنماءعبدالستار لاسی سے انکی ہمشیرہ کے انتقال پر انکی رہائشگاہ پر تعزیت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے اس موقع پر جام گروپ کے حب کے رہنماﺅں کی ایک بڑی تعداد بھی انکے ہمراہ تھی سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کا کہنا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے حوالے سے کافی دنوں سے ملاقات کرنا چارہے تھا لیکن وہ خود کچھ وقت کیلئے بیرون ملک رہے اور زرداری صاحب کی مصروفیات کے سبب تاخیر ہو ئی انھوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کے حوالے سے آصف علی زرداری اور انکے بڑوں کے ساتھ بلوچستان کے تقریباً ہر سیاسی خاندانوں سے بڑے اچھے تعلقات رہے ہیں اور ہیں بھی اور ہمارے بھی تعلقات رہے ہیں اور آصف زرداری سے پہلی ملاقات نہیں تھی لیکن حالیہ حالات میں زرداری صاحب سے ملنا لوگوں کے لئے تشویش کا سبب بنا ہے جام کمال خان نے کہاکہ وہ آصف علی زرداری کے مشکور ہیں کہ انھوں نے بڑی عزت دی ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ آئندہ آنے والے الیکشن کے حوالے سے ہر شخص اور ہر سیاسی جماعت اپنے آپ کو بہتر جگہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے انکا بھی حق ہے کہ وہ ملاقاتیں کریں اور اپنی سیاسی حکمت عمل کے مطابق بہتری کی طرف جائیں انھوں نے کہا کہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بطور بلوچ وہ بلوچستا ن کی سرزمین اور بلوچ عوام کیلئے ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں اور سیاسی وابستگی بھی رکھتے ہیں جو کہ پاکستان کی دیگر سیاسی لیڈر شپ میں بہت کم دیکھی گئی ہے جام کمال خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جہاں انکی PPPمیں شامل ہونے کی بات ہے تو وہ اس بارے میں اپنے دوستوں سے صلاح ومشورے کر رہے ہیں اور انشاءاللہ آنے والے دنوں میں ایک لائحہ عمل بنائیں گے اور جو بھی حالات کے مطابق ہوگا تو اس سے سب کو آگاہ کردیا جائے گا ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی آصف علی زرداری سے پہلی ملاقات نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی وہ کافی ملاقاتیں کر چکے ہیں انھوں نے کہاکہ آصف علی زرداری پاکستان کی سیاست میں ایک وزن اور اپنا مقام رکھتے ہیں اور سیاسی حلقوں میں انہیں عزت واحترام کی مقام حاصل ہے ہر آدمی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ا±ن سے سیاسی فائدہ حاصل کر ے اس میں چاہئے وہ ایم پی ایز ہوں یا حکومتی اراکین ہوں یا کوئی سیاسی جماعت ہو اور انکے خیال میں سیاسی حکمت عمل کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا انھوں نے کہاکہ قدوس بزنجوکی آصف زرداری سے کس حوالے سے ملاقات ہوئی ا±س کا انہیں اندازہ نہیں اور وزیر اعظم کے گوادر دورہ کے موقع پر قدوس بزنجو وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے بھی ملاقات ہوئی تھی سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے 9مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں 9مئی کے واقعات ایک بڑا سوالیہ نشانہ چھوڑ گیا ہے اور 9مئی کو وہ ہوا جو دشمنوں سے متوقع نہیں تھے PTIکے کارکنوں نے 9مئی کو پاکستان کے دشمنوں کو خوش کیا اور PTIنے جس غیر ذمہ داری کا مظاہر کیا اسکی ماضی میں نظیر ملنا مشکل ہے جام کمال خان نے کہاکہ اسوقت پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے اورملک کی سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ اور انفرادی طور پر ہم سب کو اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے باقی جہاں تک کون ٹھیک ہے اور کون غلط تو کوئی انسان فرشتہ تو نہیں ہے اور ماضی میں اسلامیہ دور کو دیکھیں تو صحابہ کرام میں بھی آپس میں اختلافات ہوتے تھے تو س سے اندازہ لگالیں کہ کون ٹھیک تھا کون غلط تھا کیونکہ ا±ن سے بڑی ہوئی مثال ہو نہیں سکتی خلفائے راشدین گزررہے ہیں انکے دور بھی صحابہ کرام کے درمیان اختلافات اور نارا ضگیاں ہوئی ہیں لہٰذا ہم اس لیول پر ہی نہیں لیکن آج کے دور میں بات ہونی چاہئے کارکردگی کی اور اسکی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلے ہونے چاہیں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا بننا کوئی نئی بات نہیں ہے اور ہمیں تو قع بھی رکھی نہیں چاہئے کہ کیا ہونے جارہا ہے کیونکہ ہم ابھی تک ترقی یافتہ قوم کے طور پر بنے ہی نہیں ہیں یہاں پر جو اپنی پارٹی سے ناراض ہوتے ہیں وہ فارورڈ بلاک بنالیتے ہیں انھوں نے بتایا کہ جہاں نگیر ترین سے انکا دیرینہ تعلق ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین اگرPTIمیں پہلے دن سے آج تک رہتے تو آج حالات مختلف ہوتے انھوں نے کہاکہ سیاسی پارٹیوں میں سیاسی شعور کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی شعور کی لیڈر شپ کو باہر رکھ کر ہاں میں ملانے والوں کو رکھا جائے گا تو نتیجہ وہی ہوگا جو آج PTIکا حال ہو اہے انھوں نے کہاکہ جہانگیر ترین کا سیاست سے دور رہنے سے نہ صرف انہیں سیاسی نقصان ہو ابلکہ ملکی سیاست کو بھی نقصان ہو اہے اور جب ناتجربہ کار لوگوں کو اہم عہدوں اور وزراتوں میں رکھا جائے گا تو حالات آج جیسے ہونگے ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہاکہ BAPایک اپنے نظریئے سے آگے چل رہی تھی انھوں نے کہاکہ آج وہ یہ بات آن ریکارڈ کہنا چاہیں گے بعض عناصر کی وجہ سے PTIآج اس نتیجے پر پہنچی ہے وہ بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی شامل تھے اور انکا ایک بڑا رول تھا اور BAPاسی وجہ سے خراب ہوئی ہے اب BAPاور انکے ا±میدواروں پر انحصار ہے کہ پارٹی کو کس جانب لے جایا جائے انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ ملک میں اسوقت چھ آٹھ ایسی سیاسی جماعتیں جوکہ ایک نظریہ اور ووٹ بنک رکھتی ہیں جو کہ 30سے50سال سے قائم ہیں اور کچھ نئی پارٹیاں ہیں ان پارٹیوں کا ایک ڈھانچہ نظر آتا ہے اور لوگ ایسی جماعتوں سے خو د کووابستہ کرنا چاہتے ہیں انہیں فیڈریشن کی جماعت جانا جاتا ہے انھوں نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی میں عموماً وہ لوگ ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوںمیں اور آزاد انہ طور پر اپنا ووٹ بنک رکھتے ہیں انھوں نے کہا کہ بلوچستان ابھی تک کوئی پولیٹیکل نیو سن پارٹی بنا نہیں سکا ہے جسطرح سندھ اور پنجاب میں ہے بلوچستان میں ابھی تک حلقہ وائز سیاست ہے اور ہر ایم پی اے یہ سوچتا ہے کہ ا±س نے اگلہ الیکشن کس طرح جیت کر آنا ہے یہاں پر سوائے چند پارٹیوں کے باقی سب کا انفرادی ووٹ بنک ہے انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں BAPکا ایک پلیٹ فارم ملا لیکن ا±سکی کمزوریاں بھی نصیب ہوئیں اور قومی سطح پر جو کام کرنا چاہئے تھا وہ ہم نہیں کر پائے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت کو 16سے18ماہ مکمل ہو چکے ہیں اور شروع کے دنوں میں وہ وزیر اعلیٰ قدورس بزنجو سے ہر وقت گلہ کرتے رہتے تھے کہ انکی کارکردگی اچھی نہیں ہے اور جب انھوں نے سلیم صافی کا انٹرویو سنا تو پھر انھوں نے قدوس بزنجو صاحب کو بری الزامہ قرار دے دیا قدوس بزنجو کا قصور اس لیئے نہیں ہے کہ 64کے64کے لوگ حکومت کا حصہ ہوں اور اپوزیشن میں کوئی نہیں ہے اور میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کچھ ڈلیور کر رہی ہے یا نہیں کر رہی ا±س میں بلوچستان کی حکومت میں بیٹھی تمام جماعتیں شامل ہیں اور صوبے کے آج کے حالات کے حوالے سے بلوچستان کی پارلیمنٹ قصور وار ہے انھوں نے کہاکہ یہاں حب اور لسبیلہ میں نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی سے الائنس ہو اہے انھوں نے کہاکہ وہ چاہیں گے کہ جام گروپ ،نیشنل پارٹی ،پی پی پی کے ساتھ جے یو آئی بھی شامل ہو اور اس حوالے سے JUIکی مرکزی قیادت سے ملیں گے اور ہم چار سیاسی قوتیں لسبیلہ بالخصوص حب کی MPAکی نشست پر ملکر مقابلہ کریں اور اس وقت حب شہر کی حالت سب کے سامنے عیاں ہے اور اگر حب کی حالت کو بہتر بنانا ہے تو ہم سب کو مل کر کوئی اقدام اٹھانا ہو گا اور جب تک صوبائی حکومت میں حب سے ہماری نمائندگی نہیں ہوگی تب تک حب کے عوام انہی مسائل سے دوچار رہیں گے اور انکے خیال میں حب پاکستان کا پہلا صنعتی شہر ہو گا جسکی حالت کھنڈرات کی مانند ہے انھوں نے کہاکہ جیو کے پروگرام میں دریجی کے حوالے سے ایک انٹرویو آیا تھا کہ دریجی بڑا خوبصورت ہے انھوں نے کہا کہ ٹی وی پر دکھائی جانیوالی خوبصورتی ڈیڑھ کلو میٹر بائی ڈیڑھ کلو میٹر تک محدود ہے وہاں پر دو کلو میٹرکے فاصلے پر ایوب گوٹھ ہے جہاں پر کوئی سہولت دستیاب نہیں انھوں نے کہاکہ وہ بھی چاہتے تو سرکاری فنڈز سے اپنے گھر کو خوبصورت بناتے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے یہاں سے آٹھ مرتبہ الیکشن جتنے والے آج اگر حب شہر کو خوبصورت بناتے تو وہ انہیں سلوٹ کرتے کیونکہ حب بھی آپ کا حلقہ ہے جہاں دریجی میں چار پانچ ارب روپے لگادیئے تو یہاں بھی تین چار ارب روپے لگا کر اس شہر کے لوگوں کو بھی سہولیات دیتے انھوں نے کہاکہ حب کے عوام ایک بار صوبائی نشست انہیں دیکر دیکھیں ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ حب کو لندن ملائشیا بنا دینگے البتہ حب کو قابل دید شہر بناکر دکھائیں گے وڈیرہ حسن جاموٹ کے مستقبل کے حوالے سے سوال کے جواب میں جام کمال خان کا کہنا تھا کہ وہ انکی مرضی ہے کہ وہ کہاں کس جماعت میں جاتے ہیں کیونکہ آج بھی وہ خود کو بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنمائ لکھتے ہیں اور جب وہ BAPکے صدر تھے تو انھوں نے انکی پارٹی میں شمولیت بھی نہیں دیکھی انھوں نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے حوالے سے کمزوریاں آئی ہیں اسوقت 3ایم پی ایز BAPکے سردار نور احمد بنگلزئی ،جمال رئیسانی انفرادی طور پر نعمت اللہ زہری ،فائق جمالی بھی پیپلزپارٹی میں جاچکے ہین جسکی وجہ سے BAPکا ڈھانچہ کمزور ہو چکا ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ ان تمام چیزوں کو سمیٹنا ہے یا پھر بکھرے چھوڑ دینا ہے کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو آگے بڑھانے کے لئے لیڈر شپ اور کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے پارٹی کا سینٹرل آفس تک بند ہو چکا ہے اور اسوقت سردار محمد صالح بھوتانی صوبائی صدر اور بلدیات کے وزیر ہیں اور جس پارٹی کا صوبائی صدر ہو اور وزیر بھی ہو اور وزیر اعلیٰ بھی اس جماعت کا ہو اور اس پارٹی کے پاس دفتر نہ ہو تو پھر بس . .

. ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ جہاں تھانے اور سرکاری محکمے کنٹریکٹ پر دیئے جائیں گے وہاں امن وامان کی صورتحال ایسی ہی ہوگی جو آج حب کی حالت ہے الحمد اللہ ہمارے دور حکومت میں ایسا کچھ نہیں تھا لیکن اب یہ سب ہو رہاہے انھوں نے کہاکہ اسوقت بلوچستان کی حکومت کے اندر 6حکومتیں کام کر رہی ہیں اور حکومت چل رہی ہے یا نہیں البتہ ٹائم پاس ہو رہا ہے انھوں نے کہاکہ حب کی قسمت بدلنے کا اختیار یہاں کے عوام کے ہاتھ میں ہے ہم نے لسبیلہ میں لوگوں کو ہر سہولت دے رکھی ہے تعلیم صحت روڈ نیٹ ورک آب نوشی وغیرہ دریجی میں آج بھی ایک گرلز ہائی اسکول تک نہیں ہے .

. .

متعلقہ خبریں