اج پسے ہوئے طبقات کے لئیے اواز اٹھانے والے سردار یوسف صاحب کے انے سے پہلے بزور بازو خود غریب کی آواز دبایا کرتے تھے ،ظلم و جبر و تشدد کی کالی شاہ رات انکی ہی مرہون منت تھی، اپنے سے نیچے طبقہ کو کمتر سمجھنا اور حقیر نگاہوں سے دیکھنا انکا فخریہ انداز تھا . گہرائی میں تاریخ کو پرکھا جائے تو ہندوستان میں جیسے شودر، کھشتری، برہمن میں جو ذات پات ،اونچ نیچ کا طبقاتی فرق ھے یہ اسی نظام کے آلہ کار اور پیروکار تھے . سردار یوسف چالیس سال اقتدار کی کرسی پر نا ہوتے تو اج مانسہرہ کی ہر چوٹی برقی قمقموں سے روشن نظر نا آتی، سردار محمد یوسف صاحب کے چالیس سالہ دور اقتدار سے پہلے محمکہ واپڈا کا ریکارڈ چیک کیا جائے مانسہرہ کے شہری علاقوں کے علاوہ کن پہاڑی و دیہی علاقوں کو بجلی فراہم کی گئی تھی . ہاں آج ببانگ دہل چیلنج قبول کیجیے کہ مانسہرہ کا کوئی ایسا گاوں بتائیں جہاں بجلی نا پہنچ سکی ہو مگر یہاں روشنی دیکھ کر ناقدین کی انکھیں چندیا جاتی ہیں سردار یوسف چالیس سال سیاسی افق پہ پرواز نا کرتے تو میرے مانسہرہ کے شرق غرب شمال جنوب میں میرے ہاری و مظلوم طبقہ کی خواتین میلوں سفر طے کر کے پانی کی گاگر سر پر اٹھائے مشقتیں جھیل رہیں ہوتیں، پانی کی فراہمی گھر کی دہلیز پر صرف امراء رؤسا،جاگیردار طبقہ کو میسر ہوتی جیسے چالیس سال پہلے تھی . ہاں مگر اج تعصب کی عینک اتارئیے اور دیکھئے اج مانسہرہ کے قریہ قریہ نگر نگر پانی کی پائپ لائن،ٹیوب ویل موجود ہیں مانسہرہ کے باسی بھی باقی دنیا کی مانند پانی کی جدید سہولیات سے آراستہ ہیں . سردار محمد یوسف صاحب اگر چالیس سال ایوان نمائندگان میں مانسہرہ کے پسے، متوسط اور نظرانداز کئیے گئے طبقات کی نمائندگی نا کرتے تو میرا مانسہرہ اج تعلیمی میدان میں کئی اقوام سے پیچھے حسرت بھری نگاہوں سے تعلیم یافتہ اقوام کو دیکھ رہا ہوتا، چالیس سال پہلے ذرا بتائیے اسوقت کے حکمران ،نمائندوں کے خاندان کے علاوہ دشوار گزار پہاڑوں میں تعلیم کی شرح کیا تھا تھی، کتنے پرائمری ،مڈل،ہائی سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا،اسمبلی تو اسوقت بھی یہی تھی، مائک تو تب بھی کھلے تھے،زبان تو تب بھی نمائیندوں کے پاس تھی ہاں مگر وہ زبان نچلے اور پسے طبقے پر مانند قینچی چلتی تھی . اج چالیس سال کے بعد سرسری تعصب بغض و عناد سے پاک نگاہ ذرا مانسہرہ کے دیہات پر دوڑائیے نا کونسا گاوں ھے، جہاں سکول نہیں، مگر یہاں بھی کبوتر کی مانند انکھیں بند کرلیتے ہیں قابل رحم معتصب ناقدین . چالیس سالہ اقتدار سردار محمد یوسف صاحب کے پاس نا ہوتا تو میرے مظلوم ہاری بھائی ماضی کی طرح اج بھی سڑکوں کو ترستے ،سودا سلف اشیاء ضروریہ اج بھی گدھوں،گھوڑوں پر لادھ کر لے جاتے ،گاڑیوں میں . بیٹھنا اور اپنی . گاڑیاں خریدنی یہ تصور سے بھی باہر تھا، مگر بغض یوسف سے باہر آئیے اور دیکھئے مانسہرہ کا ہر گاوں،شہر آج پکی و کچی شاہراہوں سے آراستہ ہے،ایک ایسا گاوں بتائیں جہاں کچی سڑک یا گاڑی کے جانے کا رستہ موجود نا ہو، بغض یوسف میں لت پت ناقدین کو کہاں یہ انقلابی تبدیلی نظر ائے گی کیونکہ یہ ترقی تو ان طبقات نے کی جنکو غلام رکھنا اور زمانہ پتھر میں ہی مستقل رکھنا انکا مستقبل کا منصوبہ تھا . سردار یوسف صاحب اگر چالیس سال مانسہرہ کی سیاسی کمان نا سنبھالتے تو آج شعور و تعلیم سے نا بلد متوسط طبقہ دھکے کھا رہا ہوتا، انہی نفرت و تعصب سے بھرے سیاسی گماشتوں کے نعرے لگا رہا ہوتا،انکی اندھی تقلید کررہا ہوتا،اور انکی نسل در نسل غلامی میں مبتلا رہتا، انکے نومولود نوجوان اج بھی مزارعین کیساتھ تصویر کھنچوا کر انکو اپنے مزارعین شو کر کےطنزیہ و معتصبانہ فخر کرتے ہیں اتراتے ہیں . ہاں اسی تنگ نظری کو سردار یوسف صاحب کے ہمہ گیر مشن اور جدوجہد نے شکست دی اور وہ طبقہ اج ترقی کی منازل طے کررہا ،حکمرانی کے میدان میں اوج ثریا کو چھو رہا جو چالیس سال پہلے تک ان سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے کے قدموں میں بیٹھا کرتا تھا ،جسکا نام تک صحیح تلفظ سے نہیں لیا جاتا تھا اج اسی طبقے کو سلیوٹ مارے جارہے، نعرے مارے جا رہے، لمبے چوڑے القابات سے نوازا جا رہا، پرتکلف عشائیے دئیے جارہے، ہرتپاک استقبال کئیے جارہے، اسی طبقہ کیساتھ تصویر کھنچوا کر سوشل میڈیا کی زینت بنائی جارہی جس طبقے کو چالیس پہلے تک سلام کر کے ہاتھ دھوئے جاتے تھے،خود کو ناپاک سمجھا جاتا تھا مگر سردار محمد یوسف صاحب کی عظیم جدوجہد کی بدولت اج سے چالیس سال قبل حقیر نگاہوں سے دیکھا جانے والا طبقہ آج قدر و منزلت کی معراج پہ ھے . جی تو یہی وہ تبدیلی و ترقی تھی جو چالیس سال میں سردار محمد یوسف صاحب کے دور اقتدار کے ثمر میں مانسہرہ کے مظلوموں،کسانوں،ہاریوں کو میسر ائی،، . چالیس سالہ سیاسی تخت پر اگر سردار یوسف صاحب براجمان نا ہوتے تو مانسہرہ کے سیاستدان شرافت،دیانت،محبت،شفقت ،الفت اور عزت و تکریم کا درس کس سے سیکھتے، ہاں چالیس سال قبل کی نفرت،تعصب،شرانگیزی بداخلاقی اور ،بدتہذیبی کی سیاست اج بھی پروان چڑھ رہی ہوتی، اب ناقدین سے التماس ھے کہ زرا ننگی انکھوں سے سردار محمد یوسف صاحب کا سیاسی سفر پڑھئیے اور سر دھنئیے . شرافت دیانت اور عجز و انکساری جیسی صفات کی حامل سیاست کی بنیاد 1979 میں جالگلی کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں رکھی گئی اج اس سیاسی و فلاحی فلسفے پر مخالفین،ناقدین تمام سیاسی ورکر و قائدین عمل پیرا ہیں،اج اسی سیاسی فلسفے کے چارسو چرچے ہیں،سیاسی دنیا میں جہاں بھی شرافت اور عجز و انکساری کا نام اتا ھے بلا شرکت غیر سردار محمد یوسف صاحب کا نام روز روشن کیطرح عیاں ہوتا ھے، کیونکہ سردار محمد یوسف سیاسی میدان میں شرافت ،دیانت،شفقت اور عجز و انکساری کی درخشاں نظیر ہیں . سردار یوسف اگر چالیس قبل سیاسی منظرنامے پر نمودار نا ہوتے تو سیاست اج بھی سیاسی وڈیروں ،سرمایہ داروں ،جاگیرداروں کے گھر کی لونڈی ہوتی . اسوقت تو متوسط طبقات کو ووٹ کاسٹ کرنے تک کی اجازت نہیں ہوتی تھی سیاست میں بطور امیدوار مقابلہ کرنا تو درکنار، مہمان خانوں اور حجروں میں قوم کی تقدیر کے فیصلے ہوا کرتے تھے مجال کہ کوئی معاشرے کا فرد لب کشائی یا سوال کرنے کی جسارت کرے، اب قارئین تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں اور مخالفین کو زحمت دوں گا ذرا تاریخ کے سیاہ ترین دور کو پرکھیں ،کہ کیا چالیس سال قبل متوسط طبقے سے جس کا کوئی سیاسی پس منظر نا ہو ،وہ سیاست کے میدان عمل میں اترا ہو، بلدیات سے لے کر قومی و صوبائی اسمبلیوں کا ممبر منتخب ہوا ہو تو بتائیے؟ تو پھر بلا جھجک ،بلا بغض و عناد سردار محمد یوسف کو کریڈٹدیجیئے بخل نا کیجیے، کہ اسی چالیس سالہ اقتدار کی حامل شخصیت نے سیاست کو گھر کی لونڈی بننے کی بجائے عام آدمی کی دہلیز پر پہنچا دیا،جس طبقے کو کل تک ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت نہیں تھی اسکی رائے کو نکارخانے میں طوطی کی آواز سمجھا جاتا تھا آج اسی شخصیت کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں یونین کونسل سے لے کر پاکستان کے ایوان نمائندگان تک رسائی ملی . سینکڑوں کی تعداد میں بلدیاتی نمائندگان جنکے گھروں کی چھتیں تک پکی نہیں تھیں، معاشی حالت اس حد تک دگرگوں تھی کہ الیکشن کا خرچ اور داخلہ فیس بھی نہیں تھی . حالیہ ضلعی ناظم مانسہرہ سردار سید غلام درخشاں مثال ہیں جو ایک مسجد کے خادم کے فرزند ہیں جس دن ضلعی نظامت کا حلف اٹھانے تشریف لا رہے تھے اس اہم دن بھی لوکل گاڑی میں سفر کر کے پہنچے،مقابل میں بڑی بڑی غناٹے بھرتی گاڑیوں میں انے والے، کلف لگے کاٹن کے سوٹ زیب تن کئیے،وسیع سیاسی پس منظر کے حامل امیدواران کو اس خادم کے فرزند نے شکست سے دوچار کیا، اور پھر یہی متوسط طبقے کا نمائندہ اپنی اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر چار سال ہزارہ کے ابادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع مانسہرہ کا ناظم رہا ، تو پھر کہنے دیجئے سردار یوسف غریب متوسط طبقات کی مضبوط آواز ہے، اسی شخصیت نے ان غریبوں،ہاریوں کو ایوانوں کی راہ دکھائی . کل تک جنکی تقدیر کے فیصلے حجروں میں ہوا کرتے تھے اسی جدوجہد کے نتیجے میں اج انکی دہلیز پر ووٹ کے لئیے جھولیاں پھیلائی جاتی ہیں، منتیں سماجتیں کی جاتی ہیں، لاکھوں کروڑوں کے پراجیکٹ کا اعلان کیا جاتا ہے، انکے غریب خانے میں بیٹھنا اب فخر سمجھا جاتا ھے،عزت و تکریم والے جملے انکی شان میں بولے جاتے ہیں،،تو پھر ببانگ دہل کیوں نا کہوں، حقیقی تبدیلی، ،اور انقلاب سردار محمد یوسف صاحب نے بپا کیا،چالیس سالہ دور اقتدار میں مانسہرہ کا سیاسی،معاشی،معاشرتی،ثقافتی اور قومی نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا، ظرف کا مظاہرہ کیجیے دل بڑا کیجیے آپ بھی اب اعتراف کیجیے اس ہمہ جہت شخصیت کے عظیم اور بے نظیر اقدامات کا کب تک مخالفت کی بنیاد پر حقیقت سے انکھیں چرائے قریہ قریہ نگر نگر گھومیں گے؟ چالیس سال قبل سیاسی فلک پر یہ سورج طلوع نا ہوتا تو اج بھی معتصب نمائندے اپکی نمائندگی کرتے، انکی ہی نسیلیں اپ پر حکمرانی کا حق محفوظ رکھتیں، بس گنے چنے خاندان اس ضلع کے سیاہ و سفید کے مالک رہتے، مگر قارئین! سردار محمد یوسف کی اعلی ظرفی، وسیع النظری اور دور اندیشی کی کچھ مثالیں پڑھئیے، کہ جس شخصیت پر تعصب کا الزام لگایا جاتا، صرف اپنی قوم کو پروان چڑھانے کا بھونڈا الزام لگایا جاتا ھے ،مگر حیف صد حیف کہ ناقدین تاریخ کے اوراق کھنگالنے کی بجائے الزام در الزام کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، تاریخ کا منصفانہ طور پر مطالعہ کیا جائے تو اس قافلے میں ہر قوم،برادری اور طبقات کے افراد شامل رہے جنکو اسی شخصیت کی قیادت میں ایوانوں سے شناسائی ہوئی، سید قاسم شاہ، سادات قوم سے تعلق رکھتے ہیں اسی قافلے کیساتھ مل کر ایوان میں گئے ، حقنواز خان سواتی قوم سے تعلق رکھتے ہیں اسی سپہ سالار کے ہاتھوں بیعت ہوئے اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، سید احمد حسین شاہ اسی شخصیت کے دست شفقت کے نتیجے میں ضلع ناظم رہے، مظہر قاسم اسی عظیم قافلے کے مسافر تھے اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے . جنید علی قاسم اسی ہمہ جہت تحریک کا حصہ بنے اور تحصیل ناظم رہے . مفتی کفایت اللہ اسی قافلے کیساتھ اتحاد کرنے کے بعد ضلعی نائب ناظم رہے . خرم حنیف خان سردار محمد یوسف کی قیادت میں ہی تحصیل ناظم رہے . وجہیہ الزمان خان بھی سردار محمد یوسف کے جھنڈے کے سائے تلے تین بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے . شہزادہ گستاسپ خان بھی ماضی میں اسی قافلے کے شریک سفر رہے . داماد نوازشریف کیپٹن صفدر جب سے داماد بنے کیا مانسہرہ سے ایک سیٹ بھی نوازشریف کو جیت کے دے سکے،پھر کیپٹن صفدر بھی سردار محمد یوسف صاحب کے ہاتھوں بیعت ہوئے،بیعت ہونے کیبعد جو کامیابی 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو ملی مانسہرہ کی تاریخ میں ایسی واضح کامیابی اور کلین سویپ کی مثال نہیں ملتی موجودہ ممبر قومی اسمبلی صالح محمد خان جنکو انگلی سے پکڑ کر سیاست سکھائی، سیاسی پرورش کی تربیت کی اور پھر سیاسی اکھاڑے میں اتارا،موصوف پانچ سال تک ممبر صوبائی اسمبلی رہے،حسب سابق دغا دے گئ . تو پھر یہ الزام بھی آج تہہ خاک ہو جانا چاہئیے کہ د سردار یوسف تعصب کی سیاست کو فروغ دیتے، تو یہ ھے چالیس سالہ اقتدار کا نتیجہ کہ ہر قوم کے فرد کو ساتھ قافلے میں لے کر چلے اور پھر نمائندگی کے لئیے ایوانوں تک بھی پہنچایا . گو کہ وفادار بہت کم . اچھا ہوا خود ہی چلے گئے ورنہ اتنے احباب کہاں سنبھالے جاتے چالیس سال قبل سردار محمد یوسف صاحب سیاسی دنیا کا رخ نا کرتے تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیڈرشپ بھی مانسہرہ کا رخ نا کرتی، نا میگا پراجیکٹس کا جال بچھایا جاتا،دیہی علاقاجات اج بھی پسماندگی کی چکی میں پس رہے ہوتے . چالیس سال قبل چند جلسے بتائیے جو قومی جماعتوں کے قائدین اور ملک کے سربراہان نے مانسہرہ کے دور افتادہ ،دشوار گزار دیہاتوں میں کئیے ہوں ،ان علاقاجات کے دورے کئیے ہوں، تاریخ دیکھیں تو سربران درکنار منتخب علاقائی نمائندے بھی مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، تو پھر قائین! ائیے دیکھیئے چالیس سال مانسہرہ کی سیاست کے بے تاج بادشاہ سردار محمد یوسف صاحب ملکی سربراہان کو بھی لائے، جماعت کی قیادت کو بھی مانسہرہ کے پہاڑوں پر لینڈ کروایا-1999 . میں اسوقت کے وزیراعظم نواز شریف مانسہرہ شہر سے تقریباً پچپن کلومیٹر دور پہاڑی علاقے، یونین کونسل بٹل کے گاوں "گلی گدا میں تشریف لائے اور ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا،کیا کوئی تصور بھی کرسکتا تھا کہ ان سنگلاخ پہاڑوں میں ملک کا وزیراعظم ائے گا اور خطاب کرے گا،یہ اسی شخصیت کے مرہون منت ہے سن 2005میں زلزلہ کی تباہ کاریوں کے بعد اسوقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سردار محمد یوسف کی دعوت پر مانسہرہ شہر سے تقریبا ساٹھ کلو میٹر دور یونین کونسل سچاں کے دور افتادہ گاوں کودر تشریف لائے اور وہاں سکول اور دیگر منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا، کیا وہاں کے باسیوں نے کبھی سوچا تھا کہ ملک کا صدر اس گاوں میں تشریف لائے گا، بلا شبہ سردار محمد یوسف کی عوام . سے محبت اور چاہت کی زندہ مثال ھے . اسی طرح سن 2005 میں ہی اسوقت صدر پرویز مشرف مانسہرہ کی ہی یونین کونسل ڈھوڈیال میں ہزارہ یونیورسٹی تشریف لائے اور ریکارڈ . موجود ھے تسلی تشفی کے لئیے . چیک کیا جا سکتا ھے کہ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کو خطیر گرانٹ دے کر گئے ، جسکی وجہ سے جامعہ ہزارہ میں مزید ڈیپارٹمنٹ بنائے گئے، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ دو بار وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہنے والا میاں نواز شریف 2013 میں اپنی انتخابی مہم کا اغاز پنجاب کی بجائے مانسہرہ سے کرتا ھے اور تاریخی جلسہ جسکا مقابلہ اج تک مانسہرہ کی کوئی سیاسی جماعت نہیں کر سکی اپنی مثال اپ ھے . یہ انتخابی مہم کا اغاز قیادت کے قلوب میں سردار محمد یوسف صاحب کی اہمیت کا منہ . بولتا ثبوت ھے . سردار یوسف کے پاکستان مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کیبعد جو مقبولت ان جماعتوں کے حصے میں ائی وہ بھی زندہ مثال ھے، ق لیگ کے دور میں بھی مانسہرہ کی تمام نشستیں ق لیگ کے پاس رہیں اور لیڈ سردار محمد یوسف صاحب کررہے تھے . ن . لیگ کے دور . میں 2013 میں کلین سویپ قیادت کے لئیے حیران کن اور مخالفین کے لئیے شرم کن تھا . چالیس قبل کی ترقی اور چالیس سال بعد کی ترقی کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں، مانسہرہ کے تمام شہری دیہاتی علاقوں کو بجلی کی فراہمی ، سردار شاہ جہان یوسف صاحب کے دور میں سات سو گاوں کو بجلی فراہم کرنا مانسہرہ کی تاریخ کا سب سے بڑا میگا پراجیکٹ ھے . ضلع مانسہرہ کے ہر گاوں ہر شہر میں پرائمری سکولوں کا قیام، مڈل و ہائی سکولوں کا قیام، اسی چالیس سالہ دور میں ممکن ہوا، کونش ویلی جہاں چالیس قبل صرف ایک ہائی سکول ہوا کرتا تھا اج کونش ویلی کی چار یونین کونسلوں میں لڑکوں کے 9 ہائی سکول فعال ہیں، تعلیمی انقلاب کی واضح دلیل ھے . زلزلہ دور کی تباہ کاریوں کے ازالے کے لئیے بیرونی امداد اور ملکی امداد متاثرین کو بہم پہنچائی گئی، بطور ضلعی ناظم ایرا کیساتھ مل کر اردار یوسف صاحب نے تمام منہدم سکولوں اور گھروں کی ازسرنو تعمیر کو ممکن بنایا ، امدادی چیکس کء طریقہ کار کو خود اپنی نگرانی میں شفاف بنایا تاکہ ہر شخص کو بکا تفریق یہ امدادی رقوم مل سکیں . خوفناک تباہی کے باوجود مانسہرہ کا انفراسٹرکچر سردار محمد یوسف صاحب کی ذاتی دلچسپی کے باعث انتہائی قلیل مدت میں دوبارہ کھڑا کیا گیا،حالانکہ . پنجاب میں ہر سال سیلاب کی تباہ کاریاں اور متاثرین کی دہائیاں روز روشن کیطرح عیاں ھیں . . چالیس قبل جب سردار محمد یوسف صاحب سیاست کے میدان سے کوسوں دور تھے ، اسوقت مانسہرہ کے سیاحتی مقامات کو ایکسپلور کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا چالیس قبل یہ سیاحتی مقامات وجود نہیں رکھتے تھے؟ یہاں بھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھئیے ،اور فیصلہ کیجئے، کہ نواز شریف دور اقتدار میں سردار محمد یوسف اور سید قاسم شاہ کے باہمی اشتراک کیبعد اسوقت کا اور عصر حاضر کا بھی عظیم منصوبہ ایم این جے روڈ کی منظوری سیاحتی دنیا میں انقلاب تھا . اسی روڈ کے بننے کیںعد ناران کاغان پورے پاکستان ہی نہیں بین الاقوامی دنیا میں سیاحتی مقامات کے طور پر ابھر کر سامنے ائے، اج ہمارے نمائندوں اور عوام کا . وہاں کروڑوں کا کاروبار چمک رہا، ہر سال لوکھوں کی تعداد میں سیاح ناران کا رخ کرتے اور ملکی، ضلعی ریونیو میں اضافے کا باعث بنتے . تو پھر تعصب کی عینک اتار پھنکیں اور کہہ دیں ترقی کا بادشاہ چالیس سال سیاسی افق کا چمکتا ستارہ سردار محمد یوسف . ایوب دور میں سی پیک روٹ کی بات کا اغاز ہو ا، پھر مشرف دور میں پیش رفت ہوئی، زرداری دور میں باقاعدہ گوادر بندرگاہ پر کام . کا . اغاز ہوا اور پھر نواز شریف دور میں چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ، اب عام ادمی اس بات سے نابلد ہیں کہ مغربی روٹ کو یزارہ کون لایا، سی پیک کا مغربی روٹ جو براستہ ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان سے جانا تھا، مغربی روٹ کے لئیے مولانا فضل الرحمان، اور وہاں کی قیادت نے سرتوڑ کوشش کی ،جیو کے معروف اینکر سلیم صافی نے درجنوں پروگرام ہزارہ روٹ کے خلاف کئیے مگر ہزارہ کے ممبران اسمبلی نے اس اہم اور قیمتی منصوبے کو ہزارہ لا کر اپنا حق نمائندگی ادا کیا ،یاد رہے چالیس سالہ اقتدار کی حامل یہ شخصیت سردار یوسف صاحب بھی انہی ممبران کا حصہ تھے اور وفاقی وزیر بھی تھے، انکی کاوشوں کی . بدولت سی پیک ہزارہ روٹ منظور ہوا اور اج ہماری گاڑیاں غناٹے بھرتے اسلام آباد سے محض دو گھنٹے میں مانسہرہ پہنچ جاتیں ہیں . اس میگا پراجیکٹ پر بھی وسیع اقلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے داد و تحسین سردار محمد یوسف صاحب کو دیجئیے . . .
(قدرت روزنامہ)ہاں گزرے چالیس سال مانسہرہ کی سایست کا بے تاج بادشاہ سردار یوسف نا ہوتا تو، غریب و ہاری جاگیرداروں کے برابر تک نا بیٹھ سکتے، غریب اج بھی جاگیردار کی ایک آواز پہ بھوکے پیٹ گدھے کی مانند کام کرتا اور سر شام بوجھل قدموں کیساتھ اپنے ارمانوں کا خون کرتے گھر کی دہلیز پار کرتا . ہاں سردار یوسف سیاست کے میدان کا رخ نا کرتے تو اج مانسہرہ کے طول و عرض کے باسی جدت کی اس دنیا میں بھی پتھرکے زمانے میں رہتے، چالیس سال پہلے مانسہرہ کے سیاہ و سفید کے مالک اج بھی غریب کو تعلیم سے محروم رکھتے، کیونکہ چالیس سال پہلے پہاڑی علاقاجات کی شرح خواندگی اور شہری علاقاجات کا موازنہ کریں ،اس وقت کتنے گریجویٹ پہاڑی علاقاجات سے تعلق رکھتے تھے اور کتنے شہری علاقاجات سے، بیوروکریسی اور باقی اداروں میں کتنے لوگ ہاری اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور اسوقت کے خود ساختہ خداؤں کے خاندان سے کتنے افسران کا تعلق تھا موازنہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ اج غریب کا نعرہ لگانے والے عزت و تکریم سے مخاطب کرنے والے اسوقت تعلیمی پسماندگی کے واحد قصوروار و مجرم تھے .
متعلقہ خبریں