20 سالہ جنگ میں ہم اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے ٗ معاوضہ نہ ملنے پر لواحقین کا پاک افغان شاہراہ پر احتجاج

لنڈی کوتل(قدرت روزنامہ)دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اوراسکے اتحادیوں کیلئے افغانستان کو تیل اور دوسرے اشیاء ترسیل کرنے والے بیشتر لوگ طالبان اور انتہاپسندوں کی جانب سے حملوں کا نشانہ بنے ان میں اکثریت ان افراد کی ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاجسٹک سپورٹ سے وابسطہ رہے ان افراد کے لواحقین پاک افغان شاہراہ پر احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت پاکستان سمیت امریکہ اور نیٹو ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو معاوضہ دیا جائے کیونکہ وہ بھی ان بیس سالہ جنگ میں اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے ان احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے والے مقامی ٹرانسپورٹر شاکر آفریدی کہتے ہیں کہ 9/11 کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا توافغانستان میں مقیم امریکہ اور اسکے اتحادیوں کیلئے تیل اور لاجسٹک سپلائی پاکستان سے براستہ پاک افغان شاہراہ طورخم اورچمن کے زریعے ہوتی رہی قبائلی عوام کی اکثریت ٹرانسپورٹ سے ہی وابسطہ ہے اسلئے اکثریت کی تعداد میں لوگ افغانستان کو تیل اور دوسرے اشیاء لے جایا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ طالبان اور انتہاپسندوں کے حملوں کا سب سے زیادہ نشانہ یہی قبائلی ڈرایؤر بنے جس کی وجہ سے یہاں کی ایک بڑی تعداد طالبان اور انتہا پسندوں کے حملوں میں لقمہ اجل بنے ان احتجاج میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یا تو خود معزور ہو گئے ہیں یا ان کے پیارے لقمہ اجل بن گئے . احتجاج کرنے والوں میں 49 سالہ رحم گل کہتے ہے کہ وہ 2006 میں قندھار کے قریب لشکر گاہ روڈ پر یخ چال کے مقام پر طالبان کی فائرنگ کا نشانہ بنے اور 9 گولیاں ان کے بدن پر لگی جس سے وہ نڈھال ہو گئے انہیں معلوم نہین کہ کس نے انہیں ہسپتال پہنچایا مگر جب وہ ہوش میں آگئے تو وہ ترکی کے تعاؤن سے چلنے والے ہسپتال میں پڑے تھے جو لشکر گاہ میں واقع ہے جہاں پر وہ 144 گھنٹے پڑے رہے ان کو ڈسچارج کرتے وقت ایک لیٹر دیا گیا کہ وہ مزید عالج کیلئے مزید امدادی رقم لے سکتے ہیں .

انہوں نے یو این آفس سے رابطہ کیا اور ان کو ہسپتال کی جانب سے دئے جانے والے لیٹر کا بھی حوالہ دیا لیکن انہوں نے ایم این اے کی تصدیق مانگی انہوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ ایم این اے سے نہ مل سکے یاد رہے کہ اس وقت خیبر سے پیر نورالحق قادری این این اے تھے انہوں نے اپنی علاج کیلئے اپنی دو گاڑیاں فروخت کر دی کیونکہ ان کے بچے چھوٹے تھے اور گاڑیوں کی دیکھ بھال اور چلانے کیلئے بھی کوئی نہین تھا انہوں نے مسلسل ڈیڑھ سال اپنی علاج جاری رکھا اور ایک ہاتھ کا اپریشن جس پر چودہ لاکھ روپے خرچ آیا لیکن وہ معزوری سے نہ بچ سکا اب وہ دوسرے بندے کیساتھ ایک ہاتھ پر ڈرائیوری کر کے اپنے بچون کا پیٹ پال رہے ہیں احتجاج میں شرکت کرنے والے درجنوں افراد نے میڈیا کو بتایا کہ سپلائی کے ٹھیکیداروں گاڑی مالکان اور ڈیلنگ کرنے والوں کو تو معاوضہ مل گیا لیکن وہ مجبور لوگ جو اپنے بال بچوں کا رزق حاصل کرنے کی غرض سے ڈرائیوری کرتے ہوئے طالبان کے حملوں کا نشانہ بنے بغیر معاوضے کے رہ گئے ہیں احتجاج میں شرکت کرنے والے عمر رسیدہ افراد نوجوانوں اور بچوں نے اپنے پیاروں کے تصاویر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر وہ معاوضے کے حصول کیلئے اپیل کر رہے ہیں احتجاج مین شریک افراد کہتے ہیں کہ امریکہ نے معاہدہ کر کے افغانستان سے انخلاء کیا انہوں نے افغانستان مین ان افغانیوں کو جنہوں نے امریکہ کیلئے کام کیا امریکہ میں پناہ دی جبکہ گاڑی مالکان کو بھی معاوضہ دیا تاہم ان کے پیارے اس جنگ میں لقمہ اجل بنے لیکن اس کے بدلے انہیں کچھ نہیں ملا انہوں نے بتایا کہ اگر ان کو لواحقین کا معاوضہ نہیں دیا گیا تو وہ اسلام آباد میں امریکی قونصلیٹ کے باہر احتجاجی دھرنا دینگے ـ . .

متعلقہ خبریں