بلوچستان میں پچھلے 27 سالوں سے چائلڈ لیبر سے متعلق کوئی حکومتی سروے نہیں کی گئی

عزیز الرحمن سباون


12 سالہ محمد امین بلوچستان کے ضلع پشین سرانان میں اپنے والد محمد جان اور 14 سالہ بڑے بھائی محمد عظیم کے ہمارا اینٹوں کی بھٹی میں کام کرتا ہے . تعلیم کے حصول کے اپنے خواب کے باوجود وہ بلوچستان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی چائلڈ لیبر کی لہر کا شکار ہوگیا .

یہ بچے دن میں ایک وقت کے کھانے کے لیے صبح صادق سے غروب آفتاب تک محنت مزدوری کرتے ہیں .

امین بتاتا ہے کہ ’میں صبح سویرے اُٹھ کر بڑے بھائی عظیم کے ساتھ کام کرنے آتا ہوں تاکہ اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ رقم کما سکوں . ہم اپنے ساتھ چائے کا تھرماس اور سوکھی روٹی لاتے ہیں ناشتہ اور دوپہیر کا کھانا یہاں بھٹی ہی میں کھاتے ہیں . میں شام میں بہت تاخیر سے تھکا ہارا گھر لوٹتا ہوں . بعض اوقات ہم اتنی تنگ دستی میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں یہ روٹی اور قہوہ چائے تک بھی رسائی نہیں ہوتی‘ .

محمد امین اس چھوٹی سی عمر میں تعلیم کے بجائے اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں مدد کررہا ہے . بلوچستان میں امین کی طرح اور بھی بہت سے بچے ہیں جو اسکول جانے سے محروم ہیں اور شدید غربت کا سامنا کرنے والے بچوں میں امین اکیلا نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ کم عمری میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں .

آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے صدر لالا سلطان کے مطابق بلوچستان میں 15 ہزار سے زائد کم عمر بچے تعمیراتی مقامات، کوئلے کی کانوں، کوڑا اٹھانے اور گاڑیوں کے گیراج میں کام کررہے ہیں . “ان بچوں کے خوابوں کو غربت نے کچل دیا ہے اور وہ انتہائی خوفناک زندگی گزار رہے ہیں . ”‎

چائلڈ لیبر کی بڑھتی ہوئی تعداد کی اہم وجہ ملک میں شدید غربت ہے . کم عمری میں مزدوری کے نہ صرف معاشرے کی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ترقی پر منفی اثرات ہوتے ہیں بلکہ بچوں پر بھی ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں .

چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے سوشل ایکٹویسٹ بہرام لہڑی نے بتایا کہ”محکموں کی جانب سے مفت تعلیم اور بچوں کے خاندانوں میں فنڈز کی مناسب تقسیم اور قوانین کا صحیح استعمال کرکے چائلڈ لیبر کے خطرے کو کسی حد تک کم کر سکتا ہے” .

کوئٹہ کے شہباز ٹاون میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک گھر میں صفائی کا کام کرنے والی پندرہ سالہ ماہ جبین نے بتایا کہ “میرے والد صاحب کا سن 2019 میں لسبیلہ کے مقام پر سڑک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا جس کے بعد میری والدہ نے یہاں اس گھر میں کام شروع کیا گزارا نہ ہونے اور کام کے زیادہ ہونے کے سبب سال 2022 میں میں نے بھی یہاں پندرہ ہزار مہینہ کے بدلے کام شروع کیا” . دوسرے بچوں کی طرح ماہ جبین کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی لیکن مالی تنگی کی وجہ سے اس کی یہ خواب خواب ہی رہ گیا ہے .

صوبہ بلوچستان میں 60 فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں . “بلوچستان” نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں سب سے نیچے ہے . 2019- 2020ء میں ہونے والے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ سروے (پی ایس ایم ایل) کے مطابق پاکستان کی 37.8 فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور موازنہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بلوچستان میں شرحِ غربت سب سے زیادہ ہے . غربت میں زندگی گزارنے والی ملک کی 10 فیصد آبادی بلوچستان میں رہائش پذیر ہے .

2022 کے آخر میں ہونے والے پوسٹ ڈیزاسٹر نِیڈ اسسمنٹ (پی ڈی این اے) سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غربت میں رہنے والی بلوچستان کی آبادی کا تناسب 43.7 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے .

اگرچہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 11 واضح کرتا ہے کہ ’14 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو فیکٹری، کان یا کسی بھی خطرناک مقام پر ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا‘ . لیکن کم عمر بچے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر مجبور بھی دیکھائی دیتے ہیں .

جامعہ بلوچستان میں شعبہ معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری کرنے والی حسیبہ کا مؤقف ہے کہ شہریوں کے حقوق کا نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہے .

وہ کہتی ہیں کہ “قوانین کے مؤثر نفاذ اور آئینی حقوق کی فراہمی سے بلوچستان میں کم عمر مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کیا جاسکتا ہے” .

مگر کوئٹہ کے شہباز ٹاون میں ماہ جبین کی گھر مالکن سارا احمد کہتی ہے کہ اگر وہ ماہ جبین کو کام پر نہیں رکھی گی تو وہ مجبوری کی خاطر کہیں اور جاکے کام کریگی جہاں انہیں مختلف قسم کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں .

“ہمیں تو گھر چھوٹے موٹے کاموں کیلئے کسی کی ضرورت ہے اگر ماہ جبین کی جگہ کوئی اور یہ کام کریگا یا کریگی تو ہمیں تو کوئی مسلۂ نہیں ہیں مگر ماہ جبین جیسے لڑکیوں کیلئے خطرناک ہوگا کیونکہ آج کل کے حالات سب کو پتہ ہے ہر قسم کی غیر اخلاقی لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں” .

بلوچستان کے وزیر منصوبہ بندی نور محمد دمڑ نے بتایا کہ انفرااسٹرکچر اور انسانی ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے علاقائی تفاوت کو کم کیا جاسکتا ہے اور بلوچستان میں کم عمر مزدوروں سمیت ہر فرد کی سماجی اور اقتصادی حالت کو بہتر کیا جاسکتا ہے . دمڑ نے بتایا کہ انکے علاقے ضلع زیارت اور سنجاوی میں جہاں پر لوگوں کی زندگی کا دارومدار زراعت سے ہے میں ان بچوں کیلئے جو پورا دن کام کرنے کے بجائے اگر ایک وقت سکول پڑھے تو انکوں ماہانہ کیش وضیفے کے ساتھ خوردنی اشیاء بھی فراہم کی جائے . “اس سے کئی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں ایک تو وہ بچے جو تعلیم سے دور ہورہے ہیں وہ واپس تعلیم کے طرف راغب ہونگے، جن گھروں کے مالی حالات کافی زیادہ خراب ہے وضیفے اور خوردنی اشیاء کے مد میں انکے سرپرست خود ہی اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کرائیں گے جہاں پر انکوں تعلیم کے ساتھ ساتھ متعلقہ کاموں کے مناسبت سے ٹریننگ بھی دی جاسکتی ہے مگر یہ سب کچھ ابھی تک صرف تجویز تک ہی ممکن ہوا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے .

بچوں سے مزدوری کی تصدیق پاکستان لیبر سروے برائے 2021 بھی کرتا ہے . اس سروے کے مطابق “پاکستان میں دس سے 14 سال تک کے 7.3 فیصد بچے چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں” .

پاکستان کا ادارہ شماریات کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ 15-19 سال کی عمر کے 4.9 فیصد بچے ہر طرح کی سخت اور زیادہ محنت اور وزن والی مزدوری کرتے ہیں .

گلوبل ہیومن رائٹس ڈیفنس کی رپورٹ 2021 کے مطابق پاکستان کے تقریباً 20 فیصد بچے مزدور کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں .

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق صوبائی اسمبلی ممبر عارفہ صدیق کہتی ہے کہ انکے دور حکومت 2016 میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ نافذ کیا، جس میں 18 سال سے کم عمر ہر بچہ، چاہیے وہ لڑکی ہو یا لڑکا بچہ کہلائے گا .

“اس قانون کے تحت بچے کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کا خیال رکھا جائے گا اور اس کے بنیادی حقوق اور پچپن کو محفوظ بنایا جائے گا . ”

سوشل ایکٹوسٹ اور کوئٹہ شہر کی رہائشی ثنا درانی نے بتایا کہ حکومت کے طرف سے صرف بل منظور کیا گیا ہے، درانی کے مطابق بل کے اطلاق کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہیں .

“بچے کی عمر تو طے ہے کہ 18 سال سے چھوٹا ہر فرد بچہ شمار ہو گا، لیکن یہاں 18 سال سے کم عمر بچوں کی بڑی تعداد گیراج، بھٹی اور کول مائنز جیسے سخت مزدوری کرتے ہیں .

اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ نہ ہی ان کام کرنے والے مزدور بچوں کو اپنے حقوق معلوم ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر اور نہ ہی کوئی یونین انہیں آگاہ کرتی ہے .

جب کسی کو حقوق ہی معلوم تو وہ آواز کیوں کر اٹھائی گے . “

آئین پاکستان کیا کہتا ہے؟

بلوچستان ہائی کورٹ میں پریکٹس وکیلہ ایڈوکیٹ زرغونہ بڑیچ نے بتایا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل (3)11 کے مطابق 14 سال سے کم عمر کے بچوں کو بھٹیوں، کارخانوں، کان کنی اور ان جیسی دوسری خطرناک اور وزنی ملازمتوں میں جانے اور کام کرنے کی ممانعت کے ساتھ ساتھ آرٹیکل (A)25 لازمی تعلیم کے لیے عمروں کی حدود مقرر کرتے ہوئے ریاست کو پانچ سے 16 سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرنے کا پابند بناتا ہے .

“آئین پاکستان میں دو مختلف مقصد کے لیے عمروں کی دو الگ الگ حدود مقرر ہیں، جو اسی قانون کے تحت بننے والے دوسرے قوانین میں بالکل مختلف ہیں. تاہم اس تفاوت کو آئین کے خلاف قرار نہیں دیا جاتا . ”

ایڈوکیٹ زرغونہ بڑیچ کہتی ہیں کہ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ ، 1991

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز1995

چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ1933

شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹس آرڈیننس1969

مرچنٹ شپنگ آرڈیننس2001

فیکٹریز ایکٹ1934

مائنز ایکٹ1923
اور روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس1961 تمام قوانین خصوصی طور پر چائلڈ لیبر سے متعلق ہیں ، جن پر عمل کرانے کی ضرورت ہے .

محکمہ تعلیم کے سیکرٹری رؤف بلوچ نے بتایا کہ انکے محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں دو کروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جا رہے جس میں تیس سے پھینتیس فیصد سکول نہ جانے والے بچوں کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہیں .
جبکہ اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے یونیسف کے طرف سے بلوچستان میں سکولوں پر کام کرنے والے آفیسر نقیب خلجی نے بتایا کہ بلوچستان خاص کر پورا پاکستان ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں پر مزدور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے . “ ہمارے سروے میں کم عمری میں چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرنے والے پاکستان بچوں کی تعداد 33 لاکھ بتائی گئی ہے . ”

یاد رہے کہ پاکستان میں سن 1996ء کے بعد سے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بھی سروے نہیں کیا گیا . جس کی وجہ سے آج پاکستان خاص کر بلوچستان میں چائلڈ لیبر کے درست اعداد و شمار کسی کو معلوم نہیں . ILO (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے 2012 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد تقریبا 1کروڑ 25 لاکھ تھی . جبکہ SPARC نامی ایک این جی او کے کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ 50 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 50لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں .

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے سیکشن چودہ کے مطابق جو بھی شخص بچوں کو خطرناک پیشوں یا پیداواری عملوں میں ملازم رکھتا ہے یا اسکی اجازت دیتا ہے تو اسے مبلغ بیس ہزار روپے تک جرمانہ ، یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکتی ہیں . اس قانون کے تحت اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اسکی کم از کم سزا چھے ماہ ہے جسکی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے .

بلوچستان خاص کر کوئٹہ میں چائلڈ لیبر کی مد میں درج ہونے والے مقدمات کی تفصیل آئین کے 2017 ارٹیکل 11 اور 14 کے تحت معلومات تک رسائی کی دو بار مسلسل درخواستوں کے ساتھ ساتھ پرسنلی رابطہ کرنے پر بھی محکمہ پولیس کی جانب سے فراہم نہ کی گئی . کوئٹہ کے صدر تھانہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ انکے تھانہ ریکارڈ کے مطابق کوئٹہ شہر میں چائلڈ لیبر کے مد میں رجسٹرڈ ہونے والا آخری کیس سال سے بھی پرانا ہے .

دی واشنگٹن پوسٹ کے ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اعدادو شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی کل آبادی میں سے 211ملین بچے ایسے ہیں جو چائلڈ لیبر کر رہے ہیں اور ان کی عمریں 5سال سے14سال کے درمیان ہیں یہ بچے زراعت کے علاوہ مختلف اشیاء کی مینو فیکچر سے وابستہ ہیں . ایشیاء میں 60فیصد چائلڈ لیبر ہے . ہر سال تقریبا6ملین بچے کام کرتے ہوئے زخمی ہو جاتے ہیں جن میں 2.5ملین بچے معذور اور تقریباًسالانہ 3,200کے قریب ہلاک ہو جاتے ہیں .

. .

متعلقہ خبریں