قلعہ عبداللہ (قدرت روزنامہ) ضلع قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے ایس بی کے پاس امیدواروں سید علی اچکزئی،ضیا الدین، محیب اللہ، سمیع اللہ، ظہور احمد، عبدالواسع، محمد عمران و دیگر نے قلعہ عبداللہ پریس کلب میں میڈیا نمائندوں کیساتھ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل بلوچستان ہائی کورٹ کے معزز ججز صاحبان کے انصاف کیخلاف فیصلے سے نہ صرف ان کی دل آزاری ہوئی ہے، ان کے حق پر قدغن لگایا گیا ہے بلکہ بلوچستان جیسے تعلیمی پسماندگی کے شکار صوبے کے بچوں پر ایک سنگین ظلم کیا گیا ہے کیونکہ صوبہ بھر میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں سکول بند پڑے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے سکول ہے جہاں پر آساتذہ کی کمی کی وجہ سے تعلیم کا عمل نہ صرف متاثر بلکہ لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہے امیدواروں کے مطابق عدلیہ کا ایک بدنام زمانہ بلیک میلر کے غیر معقول کیس کو قابل سماعت قرار دینا بھی انصاف کا جنازہ تھا اس پر حکم جاری کرنا تو انتہائی قابل افسوس ہے جب ایک بلیک میلر اس وقت ایس بی کے کے ذریعے بھرتیاں کروانے پر اعتراض کرتا ہے اور پہلے پبلک سروس کمیشن سے بھرتیاں کروانے کا مطالبہ کرتا ہے پھر اور نت نئے ڈرامے اس کیس میں شامل کرتا ہے جب اشتہار کو جاری کیے ہوئے آٹھ ماہ کا عرصہ گزرتا ہے غریب نوجوان کروڑوں روپے فیس کے مد میں جمع کرتے ہیں مسلسل تین مہینے تک دن رات ایک کرکے محنت کرتے ہیں اور ٹیسٹ پاس کرتے ہیں اب جب رزلٹ اعلان ہونے والی ہے تب جاکر معزز ججز صاحبان ایک بلیک میلر کے کہنے پر رزلٹ روکنے کا اعلان کرتی ہے جو انتہائی قابل افسوس اور ناقابل برداشت ہے امیدواروں کے مطابق ہم عدالت سے مطالبہ کرتے ہے کہ فوری طور پر سٹے کا حکم واپس لیا جائے اور میرٹ کے مطابق رزلٹ جاری کرنے اور جلد از جلد نگران حکومت کے آنے سے قبل بھرتیاں کروانے کا حکم دیں بصورت دیگر یہ بلوچستان جیسے تعلیمی پسماندگی کے شکار صوبے کے بچوں پر ظلم اور بلوچستان کے نو ہزار خاندانوں کے چولہے بجھانے کے مترادف ہے دوسری جانب انہونے جونیئر آساتذہ کی اپ گریڈیشن کے حمایت میں کہتے ہوئے کہا کہ جب محکمہ تعلیم،بلوچستان حکومت اور فنانس ڈیپارٹمنٹ جونیئر آساتذہ کی طویل جدوجہد کے بعد اپ گریڈیشن کی منظوری کرتی ہے پھر ایک بلیک میلر کون ہوتا ہے جو اپ گریڈیشن پر بھی اعتراض کرتا ہے انہونے ایس بی کے انتظامیہ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سست روی کی وجہ سے ایک میلر کو کیس دائر کرنے کا موقع ملا اور ساتھ ساتھ اس بات کو قابل تسکین قرار دیا کہ اگر محکمہ تعلیم کے افسران اور حکومتی نمائندے اس معاملے میں میرٹ کی پامالی کرنے اور کرپشن کرنے کا ارادہ رکھتی تو شاید وہ خود بھی جلد بازی کرتی ان کے مطابق اگر عدالت نے دو دن کے اندر اپنی فیصلے پر نظرثانی نہیں کی اور فیصلے کو واپس نہیں لیا تو وہ بلوچستان بھر کے پاس امیدواروں کے مشترکہ آلائنس کے حکم پر کوئٹہ کا روخ کریگی اور وہاں سے آئندہ کے لائحہ عمل پر عمل کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان تک بھی جاسکتے ہیں .
..