کوئٹہ(اقدرت روزنامہ)سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کہا ہے کہ صاف شفاف انتخابات کو یقینی بناکر پیراشوٹر اور پیرا گلائیڈرز کا راستہ روک کر حقیقی نمائندوں کو ایوان میں لانا ہوگا ، ہمارے کسی سے ذاتی اختلافات نہیں،سیاست میں نظریاتی اختلافات ہوتے رہتے ہیں، یہ تاثر غلط ہے کہاپنے دور میں وزراء اور ممبران پارلیمنٹ کو وقت نہیں دیا یا ان کے کام میں کوئی مداخلت کی، بلوچستان عوامی پارٹی جن مقاصد کے لئے بنائی گئی تھی وہ پورئے نہ ہوسکے . یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی .
انہوں نے کہا کہ باپ کے بہت سارے بچے ہیں لیکن وہ پارٹی کو فعال نہ رکھ سکے ، بلوچستان عوامی پارٹی ایوان بالا اور ایوان زیرین میں مناسب نمائندگی حاصل ہونے کے باوجود کوئی خاطر کردار ادا نہیں کرسکی ہم نے اپنے دور میں صوبے کی بہتری کے لئے کام کا آغاز کی ااپوزیشن کا ایوان اور ایوان کے باہر بہت دباو ہونے کے باوجود مثبت کردار ادا کیا . بلوچستان عوامی پارٹی جس عزم اور خلوص کے ساتھ بنائی گئی اس کا مقصد صوبے کی ترجیحی بنیادوں پر ترقی کو یقینی بنانا اور لوگوں کے مسائل کے حل کرنا تھا لیکن ان کاوشوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور جماعت کو ہر ایک نے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہوئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور جماعت کی مضبوطی اور فعالیت پر توجہ نہیں دی یہی وجہ ہے کہ آج پارٹی کا اپنا دفتر تک موجود نہیں . جس جماعت کے 6 سینیٹرز اور 5 ایم این ایز ہوں اور صوبے میں حکومت بھی ہو اور اس جماعت کی گزشتہ 22 ماہ کے دوران بلوچستان کی تعمیر و ترقی اور بہتری کے لئے کوئی کردار نظر نہ آرہا ہو تو کیا کہا جاسکتا ہے حکمران جماعت کو وفاق سے کم از کم ایک درجن کے قریب بڑے منصوبے لانے چاہئیے تھے ، سیلاب کی تباہ کاریاں ، کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ پر 8 بڑے پل ٹوٹے اور کوئٹہ سبی شاہراہ پر پل بھی ٹوٹا اور متبادل راستوں کی حالت زار بھی ناگفتہ بہ ہے حکومت نے صرف راشن دینے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں کو کچھ پیسے دیئے دوسری جانب جس طرح سندھ حکومت نے اپنے لوگوں کی مدد کی اور انہیں مکانات تعمیر کرکے دیئے ہماری حکومت نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا . انہوں نے کہا کہ بہت سی چیزوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسی چیزوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا جس سے عزت اور صوبے کے وقار پر حرف آتا ہو انہوں نے کہا کہ میرے خلاف روز اول سے ہی جماعت کے اندر سے سازشیں شروع کردی گئی تھیں لیکن کرونا وباء کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی . میری حکومت ان لوگوں نے ختم کرائی جو خود اپنی مرضی سے مسائل حل کرنے کے لئے اسلام آباد سے یہاں آتے تھے جو نہیں آئے ان کا حکومت کی تبدیلی میں کوئی عمل دخل بھی نہیں تھا . انہوں نے کہا کہ اپنے دور میں مختلف علاقوں میں 460 مائن لیز کینسل کیے جس سے بہت سے لوگ ناراض ہوئے حالانکہ اس میں میری اپنی بھی 3 مائن لیز کینسل ہوئی تھیں لیکن چونکہ ایک پالیسی بنی تھی اس پر دباو کے باوجود کام کیا انہوں نے کہا کہ ریکودک پر پہلا حق بلوچستان کا تھا اس لئے ہم نے حکومت کی 2 کمپنیاں قائم کیں جس کا مقصد بلوچستان کو کان کنی کے شعبے میں 95 فیصد حصہ دینا تھا تاکہ آنے والے وقت میں ان منصوبوں میں بلوچستان حکومت براہ راست حصہ دار ہوتی . ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بحیثیت سیاستدان ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے کسی سے ذاتی اختلافات اور لڑائی جھگڑا نہیں سیاست میں نظریاتی اختلافات ہوتے رہتے ہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں اور سیاست میں بات چیت کے دروازے کھلے رہتے ہیں صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بناکر پیراشوٹر اور پیرا گلائیڈرز کا راستہ روک کر حقیقی نمائندوں کو ایوان میں لانا ہوگا تاکہ سیاسی جماعتیں عوام کی امنگوں کے مطابق مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں . ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میں نے وزراء اور ممبران پارلیمنٹ کو وقت نہیں دیا یا ان کے کام میں کوئی مداخلت کی میں بیورو کریسی سے بحث ومباحثہ کرتا اور دلیل کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھاتا تھا . ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ میں شامل تمام وزراء موزوں ہیں نگران وزیراعلیٰ سلجھے اور منجھے ہوئے سیاستدان اور ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پہلی بار نگران حکومت کو 3 ماہ میں کام کرنے کی جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اس دوران کام کرکے دکھائیں گے .
. .