کوئٹہ (قدرت روزنامہ) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کے عالمی دن پر کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا . سیمینار میں مختلف سیاسی جماعتوں، طلباءتنظیموں، وکلا اور صحافتی برادری سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی .
سیمینار سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سردار اختر مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ لاپتہ افراد کے مسائل پر کئی کمیشن بنائے گئے، کئی عدالتیں لگائی گئیں لیکن آج تک کوئی بازیاب نہیں ہوسکا . 6فروری 1970ءکو مجھے اطلاع ہوئی کہ میرے بڑے بھائی اسد مینگل کو لاپتہ کردیا گیا ہے . چند لمحوں بعد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ اسد مینگل اب اس دنیا میں نہیں رہے . ہمیں یہ معلوم ہے کہ اسد مینگل اس دنیا میں نہیں رہے لیکن اس کے باوجود ہم ان کے انتظار میں ہیں . اگر تمارے ملک کی سا لمیت ہمارے خون اور لاشوں میں رکھی گئی ہے تو یہ قائم نہیں رہ سکتا . مسخ شدہ لاشوں میں گوشت اور چمڑہ ختم ہوجاتا ہے لیکن ان کی ہڈیاں صدائیں لگاتی ہیں . میں کسی بھی صورت بچیوں کے خودکش حملوں کی حمایت نہیں کروں گا لیکن یہ سوچنا چاہیے کہ وہ خودکش حملے پر مجبور کیوں ہوئیں . خودکش حملہ آور بچی کے ماموں کو لاپتہ کیا گیا تھا اور اس کے نانا حاجی عبد اللہ کو پیغام دیا گیا کہ وہ بی این پی چھوڑ دیں تو ان کے لاپتہ افراد کو چھوڑ دیں گے . انسان کی موت سے زیادہ اذیت اپنے لاپتہ افراد کے انتظار میں ہے، آج پورا بلوچستان اذیت سے دوچار ہے . لاپتہ افراد کمیشن کے وقت میرے پاس صرف دو چوائس تھیں، لاپتہ افراد کمیشن کی چیئرمین شپ یا راہ فرار اختیار کرنا . لاپتہ افراد کمیشن کے وقت کوئٹہ دورے پر کہا تھا کہ اس کمیشن سے کوئی توقع نہیں رکھنا . ہم نوکریاں، نالیاں بنانے کا نعرہ نہیں لگاتے بلکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا نعرہ لگائیں گے . اب صرف ہمارا ایک ہی ایجنڈا لاپتہ افراد کی بازیابی ہے . لاپتہ افراد کیلئے بلوچستان کے لوگ جس حد تک کہیں گے اس حد تک جائیں گے .
. .