اسی ’اصول‘ کی بدولت ہمیں یقین تھا کہ مصباح الحق کی ’اچانک‘ روانگی کے بعد اب قرعہ فال کسی غیر ملکی کے نام ہی نکلے گا اور بالآخر ایسا ہی ہوا اور نو منتخب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجا کا دستِ شفقت آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن پر پڑا . انہیں ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کے کوچ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جبکہ باؤلنگ کوچ جنوبی افریقہ کے ویرنن فلینڈر ہوں گے . پاکستان نے پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی کو آج سے ٹھیک 20 سال پہلے کوچ بنایا تھا اور وہ تھے جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے رچرڈ پائی بس . انہوں نے 1999ء سے 2002ء کے درمیان کئی بار یہ ذمہ داری سنبھالی . کئی مرتبہ اس لیے کیونکہ یہ بہت ہی ہنگامہ خیز دور تھا . 1999ء میں ان کے کوچ بنتے ہی پاکستان میں مارشل لا آگیا، واپس آئے تو 2001ء میں نائن الیون ہوگیا اور پھر 2003ء کے ورلڈ کپ میں شرمناک ناکامی کے بعد نہ صرف وسیم اکرم، وقار یونس اور سعید انور بلکہ خود پائی بس کی کہانی بھی ختم ہوگئی . مزید پڑھیے: کوچز کے اچانک ’کُوچ‘ کرنے کی وجہ کیا بنی؟ غیر ملکی کوچ کے ساتھ پاکستان کا پہلا تجربہ بہت نشیب و فراز کا حامل تھا . لیکن 2003ء کے ورلڈ کپ کی بدترین ناکامی کے بعد 'آپریشن کلین اپ' میں سب کا صفایا ہوگیا . اس کے بعد نیا کپتان اور نیا کوچ چنا گیا . نظرِ انتخاب پھر مقامی کوچ پر پڑی اور جاوید میانداد کو تیسری مرتبہ یہ ذمہ داری دی گئی . وہ 1998ء اور 2000ء میں ایک، ایک سال کوچ رہ چکے تھے اور اس مرتبہ بھی یہ عہدہ ایک سال ہی ان کے پاس رہا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی . رچرڈ پائی بس شعیب اختر سے بات چیت کرتے ہوئے— تصویر: آئی سی سی جون 2004ء میں پاکستان نے باب وولمر کو اپنا کوچ مقرر کیا . ان کا تعلق انگلینڈ سے تھا اور وہ جنوبی افریقہ کی کوچنگ کرکے عالمگیر شہرت حاصل کرچکے تھے . 1994ء سے 1999ء کے دوران ان کی تربیت میں جنوبی افریقی ٹیم کا شمار بلاشبہ دنیا کی کامیاب ترین ٹیموں میں ہوتا تھا . باب وولمر کے آتے ہی پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی ایک نئی جان نظر آئی . 2005ء کے اوائل میں پاکستان نے دورہ بھارت میں ٹیسٹ سیریز برابر کی اور ون ڈے سیریز 4-2 سے جیتی . بھارت کو بھارت میں چت کرنا ایسا کارنامہ تھا، جس نے وولمر کے مقام کو مضبوط کردیا . اسی سال ان کی کوچنگ میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کو ایشیز میں تاریخی شکست دے کر آنے والی انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو بھی ہرا دیا . اس کے علاوہ بھارت اور سری لنکا کو بھی ٹیسٹ سیریز میں زیر کیا . یوں وولمر کی دھاک بیٹھ گئی . یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے کوچ کے مقابلے میں زیادہ عرصے پاکستان کے ساتھ رہے . یہاں تک کہ وہ مارچ 2007ء میں ورلڈ کپ میں پاکستان کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست اور ایونٹ سے اخراج کا صدمہ برداشت نہ کرسکے اور اسی روز انتقال کرگئے . وولمر کی المناک موت کے بعد پاکستان نے اگلا انتخاب بھی غیر ملکی کوچ کا ہی کیا، جو روایت کے برعکس اٹھایا گیا قدم تھا . یہ آسٹریلیا کے جیف لاسن تھے، جنہیں 2 سال کے لیے یہ عہدہ دیا گیا تھا لیکن چیئرمین اعجاز بٹ نے اگلے ہی سال لاسن کی چھٹی کردی . . .
(قدرت روزنامہ)پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا تقریباً ناممکن ہے . لیکن ایک دن زمبابوے سے شکست کھا کر اگلے ہی مقابلے میں آسٹریلیا کو شکست دینے کی ’صلاحیت‘ رکھنے والی ٹیم کے لیے جو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے، وہ یہی ہے کہ اس کے پاس ایک ’میوزیکل چیئر‘ ہے، جس پر پہلے ایک مقامی کوچ بٹھایا جاتا ہے اور اگلی باری ایک غیر ملکی کوچ کی ہوتی ہے .
متعلقہ خبریں