ریکوڈک معاہدہ آئین و قانون کے مطابق کیا گیا، 10 ارب جرمانے سے سنگین نتائج برآمد ہوتے، جسٹس جمال مندوخیل
اسلام آباد (قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ میں ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر جسٹس جمال مندوخیل نے11صفحات کا نوٹ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا کہ ریکوڈک معاہدہ آئین و قانون کے مطابق کیا گیا . جسٹس جمال مندوخیل نے نوٹ میں کہا کہ ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر 9 دسمبر کو مختصر متفقہ رائے دی تھی، اب تک ریکوڈک منصوبے پر صدارتی ریفرنس سے متعلق تفصیلی رائے جاری نہیں ہوئی .
نوٹ میں کہا گیا کہ پاکستان پر پچھلے ریکوڈک منصوبے کی خلاف ورزی پر عائد 10 ارب ڈالر جرمانے سے سنگین اثرات ہوتے، خوش قسمتی سے پاکستان پر عائد بھاری جرمانہ معاہدے کی صورت طے ہوا، ریکوڈک منصوبے سے بلوچستان کے مقامی مزدوروں اور عوام کو فائدہ پہنچے گا، عدالت نے انہی وجوہات پر ریکوڈک معاہدے کی توثیق کی اجازت دی . جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین میں عوامی اثاثوں کو قانونی طریقہ کار سے صرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے، ریکوڈک معاہدے میں عوامی اثاثوں کو قانونی اور جائز طریقہ کار سے صرف کیا جا رہا ہے، آئین کے مطابق کانوں اور معدنیات ڈیولپمنٹ سے متعلق قوانین صوبوں کے اختیار میں آتے ہیں، سندھ اور کے پی اسمبلی پہلے ہی کانوں اور معدنیات پر تفصیلی قانون سازی کر چکے . نوٹ میں کہا گیا کہ ایٹمی توانائی اور آئل فیلڈز سے متعلق قانون سازی وفاق کا اختیار ہے، مجوزہ غیر ملکی سرمایہ کاری ایکٹ 1948 کے قانون میں ترمیم نہیں ہے، بلوچستان حکومت نے ریکوڈک معاہدے کی عوامی معاہدے کے طور پر توثیق کی، ریکوڈک معاہدے میں پاکستان کی طرف سے کوئی ماحولیاتی چھوٹ نہیں دی جا رہی . نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کا فارن انویسٹمنٹ ایکٹ الگ قانون کے طور پر دیکھا جائے گا، وزیراعظم کی سربراہی میں کمیٹی نے ریکوڈک معاہدہ طے کیا، ریکوڈک معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں، ریکوڈک معاہدے پر پاکستان اور بلوچستان حکومت کو آزادانہ ماہرین نے معاونت دی . خیال رہے کہ مارچ 2022 میں غیر ملکی کمپنی بیرک گولڈ نے سرمایہ کاری کیلئے آمادگی ظاہر کی تھی، بیرک گولڈ نے جرمانہ سیٹلمنٹ کے ساتھ منصوبے میں آدھی سرمایہ کاری کی آمادگی ظاہر کی تھی . ریکوڈک منصوبے میں بقایا 50 فیصد سرمایہ کاری پاکستان نے کرنی ہے، سرمایہ کار ٹیتھیان اور بیرک گولڈ نے معاہدے میں ملنے والی چھوٹ پر قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا، غیر ملکی کمپنیوں نے معاہدے کی سپریم کورٹ سے توثیق کا مطالبہ بھی کیا تھا، وفاقی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری بل 2022 بنایا تھا، رائے کیلئے صدر پاکستان نے 15 اکتوبر کو ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا تھا .
. .