بدحال معیشت اور مہنگائی ، حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں ؟حسین حقانی نے تجاویز دیدیں

لاہور (قدرت روزنامہ) پاکستانی معیشت بدحالی کا شکار ہے, اسے تنظیم نو کی سخت ضرورت اور نجی سرمایہ کاروں کی واپسی درکار ہے .لیکن سیاستدان ناگزیر اقتصادی فیصلوں کو تواتر سے ملتوی کرتے نظر آتے ہیں. حکومت اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کر لے اورصارفین پر بوجھ ڈالنے والے سرچارجز کو ختم کر دے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں . معروف تجزیہ کار و کالم نگار حسین حقانی نے پاکستان کی معیشت کی بحالی اور بڑھتی مہنگائی کے حوالے سے اہم تجاویز دیدیں .

"روزنامہ جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے کالم میں حسین حقانی نے لکھا کہ پاکستان کو مالیاتی استحکام اور نجی سرمایہ کاروں کی واپسی درکار ہے . یہ طویل المدتی اہداف صرف ایسے پالیسی فریم ورک کے ذریعے ہی پورےکئے جا سکتے ہیں جس کا دورانیہ ایک فرد یا سیاسی جماعت کی آئینی مدت کا پابند نہ ہو . کئی برس ماہرین نے توانائی اور ٹیکس کے شعبے میں اصلاحات اور مالیاتی پالیسی کی بہتری پر زور دیا ہے . اگرچہ ماہرینِ اقتصادیات کا نقطہ نظر بعض اوقات سیاست دانوں سے مختلف ہوتا ہےلیکن کوئی بھی معاشی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی اگر اس پر عمل درآمد سیاسی طور پر مشکل ہو . لیکن پاکستان میں سیاستدان اور دیگر رہنما سیاسی مشکلات یا عوامی ردعمل کا حوالہ دے کر ناگزیر اقتصادی فیصلوں کو تواتر سے ملتوی کرتے نظر آتے ہیں . پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 10.3فیصد کے قریب ہے . اسے 15فیصد تک بڑھانا چاہئے . پاکستان کو سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی ضرورت ہے .

اپنے کالم میں حسین حقانی نے مزید لکھا کہ 1990کی دہائی میں ریاستی ملکیت میں لینے جانے والے کاروباری اداروں کا حکومت پر بہت بھاری بوجھ ہے . اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے وقتاً فوقتاً مطالبات کئے جاتے رہے ہیں لیکن یہ عمل تسلسل سے محروم رہا . یہ کاروبار نجی شعبے میں زیادہ مؤثر طریقے سے چلائے جاسکتے ہیں اور غیر ملکی خریدار اِن میں سے بہت سی چیزیں بخوشی حاصل کریں گے، جس سے بہت زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوگا . ایسے ہی کچھ کاروباری ادارے برس ہا برس سے خسارے میں ہیں اور مستقبل بعید میں بھی ان کے ریاستی انتظام کے تحت نتیجہ خیز بننے کا امکان نہیں ہے . کچھ ادارے ایسے ہیں جنہیں بند کرنے اور ان کے اثاثوں کو وہاں سے نکال کر دوسرے، زیادہ پیداواری استعمال میں لانے کی ضرورت ہے . دیگر ممالک نے کامیابی سے نجکاری کی ہے . پاکستان ایسا کرنے میں ناکام یا پیچھے کیوں رہا ہے؟

اپنے کالم میں حسین حقانی نے لکھا کہ یہ سب کیلئے بہتر ہو سکتا ہے اگر حکومت اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کر لے، فی الحال صارفین پر بوجھ ڈالنے والے سرچارجز کو ختم کر دے، اور ایندھن اور بجلی کی قیمتوں کو مارکیٹ کے ذریعے طے کرنے کی اجازت دیدے . پاکستان زیادہ نوٹ چھاپ کر اپنے بجٹ خسارے کو پورا نہیں کر سکتا، کیوں کہ نوٹ چھاپنے سے افراط زر بڑھ جاتا ہے . وفاقی حکومت اور صوبوں کو ایسے طریقہ کار پر متفق ہونے کی ضرورت ہے جو مالیاتی ذمہ داری کے وعدوں کے نفاذ کو یقینی بنائے . قومی مالیاتی صورت حال کو اس سے کہیں زیادہ واضح ہونے کی ضرورت ہے جتنا کہ اکثر دکھائی دیتی ہے . برآمدات کو بڑھانے کیلئے مشترکہ کوششیں درکار ہیں . حکومت کا کردار یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ تاجروں کو لیکچر دے کہ سرمایہ کاری کرنا یا ٹیکس ادا کرنا ان پر حب الوطنی کے حوالے سے فرض ہے . ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جس میں پاکستان میں سرمایہ کاری اور ٹیکس ادا کرنا سرمایہ کاروں اور تاجروں کے اپنے مفاد میں ہو .

اپنے کالم کے آخر میں حسین حقانی نے لکھا کہ فی الحال وہ طاقتیں انتظامی اقدامات پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، جیسے سمگلنگ کیخلاف کریک ڈاؤن (جس کے نتیجے میں محصولات میں نقصان ہوتا ہے)، ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی (جو مصنوعی طور پر سپلائی کو محدود کرتی ہے اور قیمتوں کو بڑھاتی ہے)، اور بدعنوانی (جو سرمایہ کاری کو کم کرتی ہے، حدود معاشی نمو، اور مسابقت کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات کی تشکیل پر بھی نقصان دہ اثر ڈالتی ہے) . ان اقدامات کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ، لیکن اس عمل کی حدود کو ذہن میں رکھنا ہوگاکیوں کہ صرف یہی کافی نہیں . اکتوبر 1958 میں پاکستان کا پہلا مارشل لاء لگانے کے فوراً بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی ملک کو بدعنوان عناصر سے پاک کرنے کیلئے ایسے ہی اقدامات کا آغاز کیا . دس سال بعد، اپنی سوانح عمری’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘میں، اس نے بتایا کہ کریک ڈاؤن نے معیشت کو کیوں تبدیل نہیں کیا . فیلڈ مارشل کے مشاہدات آج کے ماحول میں بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے .

. .

متعلقہ خبریں