بلوچستان

پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچ کے اپنے گورنر، وزیراعلیٰ اور اپنے صوبے ہیں، پشتونوں کیلئے پاسپورٹ کی شرط، محمود خان احکزئی


چمن(قدرت روزنامہ)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پشتونخوا وطن اور اس کے قدرتی وسائل پر پشتونوں کا حق ملکیت حق حاکمیت اور حق خود ارادیت تسلیم کرانے تک چین سے نہیں بیٹھینگے، حقوق مانگنے کیلئے سب سے بہترین راستہ سنجیدہ سیاست ہے ،پاسپورٹ کا نظام صرف ان لوگوں کے درمیان نہیں مانتے جن کی زمینیں لکیر کی ایک جانب اور دوسری جانب ہیں جس طرح ہنزہ کے آغا خانی عوام چین کے صوبہ سنکیانک کے ساتھ آنے جانے کیلئے ایک کاغذ دکھاتے ہیں یا کشمیر کے دونوں جانب کے لوگوں کیلئے بغیر پاسپورٹ کے آنے جانے کا انتظام ہے اسی طرح چمن قندھار اور بولدک کے لوگوں کیلئے بھی پاسپورٹ نہیں مانتے ،چمن پرلت ایک تاریخی سیاسی عمل ہے جس نے لوگوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں کیونکہ لوگ پشتونوں کے بندوق اٹھانے سے اتنے پریشان نہیں ہونگے جتنے انکے اتحاد اتفاق اور پرامن سیاسی عمل سے پریشان ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی بساط کے مطابق وہ عمل کرنا چاہئے جس کے امکانات ہوں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے اس خطے میں سیاست کی بنیاد اس وقت رکھی جب یہاں انگریز کی بدترین غلامی کا دور دورہ تھا۔ خان شہید نے پشتون قومی وحدت اور قومی صوبے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچ کے اپنے گورنر اپنے وزیراعلیٰ اور اپنے صوبے ہیں لیکن پشتون اس پانچ قوموں کے مشترک فیڈریشن میں چار الگ الگ انتظامی یونٹوں میں تقسیم ہیں ،جب تک خیبر پشتونخوا اٹک میانوالی اور جنوبی پشتونخوا کے پشتونوں کا مشترکہ پشتون قومی صوبہ نہیں بنتا اس وقت تک بلوچ کو یہاں پشتونوں کی برابری تسلیم کرنا ہوگی، بلوچ پشتونوں کے بغیر دنیا کی طاقتور قوتوں سے اپنے قیمتی وطن کا دفاع اکیلے نہیں کرسکتے ،ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بندوق کے بغیر سیاسی عمل سے اپنے حقوق لے سکتے ہیں، یہ کیسا معیار ہے کہ ایک کروڑ سے کم بلوچ تو دس کروڑ پنجاب کے ساتھ برابری کا دعوی کرتا ہو اور یہاں پشتونوں کی برابری کو تسلیم نہیں کرتے، پشتونوں کا سیاست کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جس قوم نے سیاست ہاری وہ سب کچھ ہارگئے ہیں۔ سیاسی فیصلے قوموں کی تقدیریں بدل دیتی ہیں ،ایک سیاسی فیصلے کے نتیجے میں ہندووں کے آباد کئے گئے شہر کوئٹہ پشین چمن وغیرہ آج پشتونوں کی ملکیت ہیں۔ پشتونوں نے متحد ہوکر سیاسی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محترم محمودخان اچکزئی نے عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں ضلع چمن کے تور تنگی کلی حاجی جلال حسن زئی۔ کروڑئی خواجہ عمران کلی ابتو کاریز عثمانزئی۔ کلی حاجی عبدالقدیر۔ کلی اڈہ کہول ملیزئی کلی حاجی خانان اکا میں مختلف عوامی جرگوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عوامی جرگوں سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری عبدالرحیم زیارتوال، حاجی بنگ اکا عثمانزئی، حاجی اخلاص اچکزئی، حاجی عبدالرشید اکا نے بھی خطاب کیا۔ پارٹی چیئرمین مشر محمودخان اچکزئی کے ساتھ عوامی رابطہ مہم کے پروگراموں میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری ڈاکٹر حامد خان اچکزئی مرکزی سیکرٹری ناظم صلاح الدین، صوبائی صدر عبدالقہار خان ودان ، صوبائی ڈپٹی سیکرٹریز نصیر ننگیال ،سردار حیات میرزئی ،اقبال خان بٹے زئی اور پارٹی کے ضلعی و تحصیل رہنماوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مختلف پروگراموں میں حاجی عبداللہ اکا، بسم اللہ، محمد جعفر ،محمد ظفر، لاجور خان، حیات اللہ، نقیب اللہ ،زبیر خان نے اپنے خاندانوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی سے مستعفی ہوکر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ نئے شامل ہونیوالوں کو پارٹی چیئرمین نے مبارکباد دی اور خوش آمدید کہا۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ہم پشتون ایک قوم دو الگ الگ ملکوں میں تقسیم ہیں اب اس نازک رشتے کو لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ افغانستان ہمارا تاریخی وطن اور پاکستان ہمارا ملک ہے ہم پاسپورٹ کے منکر نہیں لیکن چمن اور اس لکیر کے آر پار آباد پشتون قوم کے مختلف قبیلوں کی زمینیں ہیں ایسے بھی گھر ہیں جسکا مہمان خانہ لکیر کے اس پار اور گھر ادھر ہے کسی گاوں کے قبرستان وہاں اور رہائش اس طرف ہے لہذا ہم اپنے میتوں کو دفنانے کیلئے کسی پاسپورٹ کو نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پشتون عوام کے ساتھ مسلسل ذیادتیاں اور غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے پشتون نوجوان مسافری دربدری اور مزدوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا کے نوجوان اسوقت جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو سائنس و ٹیکنالوجی، آسمانوں اور سیاروں کے کے بارے میں باتیں کررہے ہوتے ہیں لیکن پشتون نوجوان جس کے آبا واجداد نے صدیوں تک حکمرانی کی ہے آج ان کی حالت یہ ہے کہ جب وہ اکٹھے بیٹھتے ہیں تو انکی مجلس کا محور یہ ہوتا ہے کہ کہاں مزدوری ملتی ہے۔ دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے چھوٹے عمر کے بچے بھی محنت مزدوری کیلئے مجبور ہیں اور اسی سالہ بوڑھے بھی اپنے گھروں سے دور مسافری میں چوکیداری بوٹ پالش وغیرہ کرتے ہیں۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ پشتونوں میں چوکیدار مزدور نہیں ہونے چاہیں بالکل ہونگے لیکن یہ بہت خطرناک ہے کہ پوری قوم مزدور ہو۔ انہوں نے کہا کہ منقسم پشتونخوا وطن کی وحدت پشتون صوبے اس وطن کے وسائل پر واک و اختیار اور پشتو زبان کو سرکاری تعلیمی دفتری عدالتی زبان قراردینے کیلئے پشتونخوا میپ کی جدوجہد جاری ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ خان شہید نے جس کام کا آغاز اکیلے کیا تھا آج اسکے ساتھی ہر گاوں اور ہر کوچے میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ کچھ لوگ قوم کی بات کو گناہ سمجھتے ہیں حالانکہ قوم کا ذکر قران کریم میں بھی آیا ہے اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو پیغمبری اس لئے دی کہ وہ اپنی قوم کو فرعون کی بندگی سے نجات دلادے غلامی کو اللہ تعالی نے بندگی سے تعبیر کیا ہے۔ آج کی دنیا کے سوشل سائنس کے ماہرین نے قوم کی تعریف یہ کی ہے کہ جن لوگوں کی زبان ثقافت تاریخ جغرافیہ ہیروز ایک ہوں وہ ایک قوم کہلاتی ہے۔ پشتون ایک قوم ہے اور اس ملک میں دوسرے اقوام کے ساتھ برابری انکا انسانی اسلامی اور آئینی حق ہے۔

متعلقہ خبریں