’ امریکہ نے کسی سطح پر بھی پاکستان سے فوجی اڈے نہیں مانگے ‘ ، حکومتی موقف کے خلاف بڑا دعویٰ سامنے آ گیا

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران پاکستان میں امریکہ کی جانب سے افغانستان سے انخلاءکے بعد فوجی اڈوں کے مطالبے کا معاملہ زبان زد عام ہے جس پر وزیراعظم عمران خان نے دبنگ موقف اپناتے ہوئے صاف انکار کیا اور پھر اسے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے دہرایا بھی ، لیکن اب نہایت ہی حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے جس میں ’ مغربی سفارتکاروں کا کہناہے کہ امریکہ نے کبھی پاکستان سے کسی سطح پر بھی فوجی اڈے نہیں مانگے  ‘ . مقامی انگریزی اخبار ’ دی نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق مغرب کے ایک سینئر سفارتکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی انتظامیہ میں کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جس نے پاکستان سے فوجی اڈے دینے کی درخواست کی ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ مسئلہ پاکستان میں توجہ کا مرکز بنا ہواہے .

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر پاکستان میں جاری بحث اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ہیش ٹیگ ” ایبسولیوٹلی ناٹ “ پر امریکہ حیرانگی کے عالم میں اپنا سر کھجا رہاہے جبکہ امریکہ نے فوجی اڈوں سے متعلق چلائی جانے والی مہم پر اپنے تحفظات سے حکومت پاکستان کو آگاہ بھی کر دیاہے . نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکی تاریخ قریب آئی تو پاکستان کے پالیسی سازوں کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی کہ امریکہ نے مبینہ طورپر پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ کر دیاہے ، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جے برنس نے پاکستانی افواج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر اس موضوع پر براہ راست بات کی تھی . امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بات چیت میں اس وقت تعطل آیا جب امریکی حکام کو یہ محسوس ہوا کہ ان کے پاکستانی ہم منصب ہچکچاہٹ کا شکار ہیں . مئی کے مہینے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان جب تک اقتدار میں ہیں اس وقت تک امریکا کو کوئی فوجی اڈہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی . ایک سینئر مغربی سفارت کار کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا بتنگڑ بنانے والی بات ہے جو مسئلہ موجود ہی نہیں ہے . ان سے جب پاکستان میں پائے جانے والے اس تاثر سے متعلق سوال کیا گیا کہ امریکا نے افغانستان سے نکلنے میں جلد بازی کی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ دوسروں پر الزام عائد کرنے کا ایک حربہ ہے جو کہ افغانستان میں امن و امان کی خراب صورت حال سے متعلق ہے . ایک اور سینئر سفارت کار کا کہنا تھا کہ بحث کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طالبان کابل میں موجودہ حکومت سے سیاسی مفاہمت پر بروقت مذاکرات شروع کرنے میں کیوں ناکام رہے . . .

متعلقہ خبریں