بلوچستان میں ٹی بی کے تیس فیصد کیسز بعد از تشخیص ریکارڈ سے غائب ہو جاتے ہیں، ربابہ بلیدی

کوئٹہ(قدرت روزنامہ) پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ٹی بی کے تیس فیصد پازیٹیو کیس بعد از تشخیص مختلف وجوہات کی بنا پر علاج معالجے کی دسترس اور ٹریکنگ ریکارڈ سے غائب ہوجاتے ہیں کثیر الجہتی اقدامات کے تحت ٹی بی، ملیریا اور ایچ آئی وی کے ادراک کے لئے ہمہ وقتی کوششیں مثبت و دیرپا نتائج کی حامل ثابت ہو سکتی ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نیسینئر ایڈوائزر اسٹاپ ٹی بی پروگرام پاکستان ڈاکٹر کرم شاہ ٹی بی کنٹرول پروگرام بلوچستان کے منیجر ڈاکٹر آصف شاہوانی ڈاکٹر خرم لاشاری اور ڈاکٹر شیر افگن پر مشتمل نمائندہ وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ایشیاء میں انسداد ٹی بی کے لئے مختلف فورمز پر خدمات سرانجام دینے والے ماہر طب و اسٹاپ ٹی بی پروگرام کے سینئر ایڈوائزر و دوپاسی ٹرسٹ کے سربراہ ڈاکٹر کرم شاہ نے بلوچستان سمیت پاکستان اور خطے میں ٹی بی سے متعلق صورتحال اور اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں انسداد ٹی بی کے لئے مختص گلوبل فنڈز کا صرف 30 فیصد حصہ استعمال ہو پاتا ہے جبکہ ستر فیصد مختص وسائل عدم ا ستعمال کے باعث واپس ہوجاتے ہیں انسداد ٹی بی کے لئے قابل عمل حکمت عملی مرتب کرکے دستیاب عالمی وسائل کا درست استعمال اس مرض کے ادراک کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے سینئر ایڈوائزر اسٹاپ ٹی بی پروگرام کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے ٹی بی کے خاتمے کے لیے اقدامات کو مزید بہتر بنایا جائے گا اور باقی تینوں صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی انسداد ٹی بی ایکٹ لایا جائیگا قوانین کی موجودگی میں اس موذی مرض کے ادراک کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاسکیں گے انہوں نے کہا کہ ضلعی سطح پر ادراک ٹی بی کے لئے دستیاب وسائل کے درست استعمال کی ضرورت ہے اس سلسلے میں ضلعی آفیسران صحت کو دیگر ورٹیکل پروگرامز کی طرح انسداد ٹی بی کی زمہ داریاں بھی پوری سنجیدگی سے نبھانی ہونگی اور ملٹی سکٹوریل فریم ورک میں اہداف کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا انہوں نے کہا کہ ضلعی سطح پر محکمہ صحت کے انتظامی آفیسران کی کارکردگی کا جائزہ سیٹ فارمیٹ مانیٹرنگ کے ذریعے کیا جائیگا صوبائی حکومت ہیلتھ سیکٹر میں غیر معمولی وسائل فراہم کرکے جو اقدامات اٹھا رہی ہے ان کے نتائج بھی آنے چاہئے ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ کووویڈ اور پولیو پر اس لئے خصوصی فوکس ہے کہ اس میں ہر سطح پر انتظامی آفیسران کی سخت اور براہ راست مانیٹرنگ کا میکنزم موجود ہے اس کے برعکس ان دونوں بیماریوں سے قبل ایک عرصے سے ٹی بی اور اس جیسی دیگر موذی بیماریاں چلی آرہی ہیں جو نہ صرف صحت عامہ کو متاثر کررہی ہیں بلکہ علاج معالجے کے غیر معمولی اخراجات کے باعث غربت میں اضافے کا سبب ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے ٹی بی کے خاتمے کے لیے طبی سہولیات کو موثر بنانے کے ساتھ ساتھ قانون سازی کا عمل بھی شروع کیا جائیگا اور اس ضمن میں تشریحات پر مبنی جامع ایکٹ لایا جائے گا ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے ٹی بی سے متعلق رضاکارانہ خدمات کی انجام دہی پر ڈاکٹر کرم شاہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے بلوچستان میں انسداد ٹی بی کے لئے قابل عمل حکمت عملی مرتب کی جائیگی . .

.

متعلقہ خبریں