۔ کوئی جواز نہیں ـ۔

   

تحریر،عطا کاکڑ

چار افراد پر مشتمل مڈل کلاس پاکستانی فیملی کی کہانی جس میں ماں اپنے بیٹی اور بیٹے کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھانا چاہتی ہے تاکہ ان کے ساتھ ان کے بچے بھی خود کفیل بنے جس پر والدزبیر ناخوش ہوتے ہیں اور گھر میں پریشانی کا عالم پیدا ہوجاتا ہے . والد کی طبیعت خراب ہوجاتا ہے تو اسے ہسپتال مین داخل کیا جاتا ہے .

دو دن ہسپتال مین داخل ہونے کے بعد جب والد گھر واپس آتے ہیں تو معلوم کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان کے علاج کے پیسے ان کی اہلیہ نے اپنی جمع پونجی سے ادا کئے جس پر والد زبیر افسردہ ہوکر اہلیہ فرحانہ سے معافی مانگتا ہے اور اس بات کا احساس کرلیتا ہے کہ اہلیہ فرحانہ سلائی کا جو ہنر اپنی بیٹی ثنا کو سکھانا چاہتی تھی وہ ٹھیک تھی .

چار افراد پر مشتمل مڈل کلاس پاکستانی فیملی میں زبیر اور فرزانہ کے دو بچے ہیں ، ثنا اور حمزہ . زبیر اور فرزانہ کی 15 سالہ بیٹی ثنا رنگوں کی پہچان نہیں کرپاتی . یہ خاکہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 روزہ مہم #کوئی جواز نہیںـ کے عنوان سے اقوام متحدہ کی خواتین ( یو این اومن) اور حکومت جاپان کی حمایت سے منعقد کئے جانے والے تقر یب میں دکھایا گیا .

پراگروم میں پر ڈائریکٹر ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ بلوچستان، شا ز یہ ریاض نے اپنے خطاب کے دوران 16 روزہ مہم کی خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ صنفی بنیاد پر تشدد کے مسلسل د شوااریوں کو اجاگر کرنا، روکتھام اور خاتمے کے لیے اجتماعی کارروائی کو فروغ دینا ہے مقصود تھا . انہوںنے اقوام متحدہ کی خواتین کی جانب سے ـ . کوئی جواز نہیں . عنوان سے پروگرام کو سراہا او ر کہا کہ کوئی جواز نہیں مہم بلوچستان میں خواتین کی بیدار ی اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے بہترین کاوش ہے . انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا .
(ــہمارا وژ ن ایک کوئٹہ ہے جہاں ہر فرد اپنی قدر جانے اور خود کو محفوظ محسوس کر ے ، یہ پروگرام ہر سال منایا جاتا ہے جس کا مقصد بلوچستان دور دراز اور دیہی علاقوں تک خواتین کی آواز بلند کرنا مقصود ہے . اسی طرح مرد و خواتین میں یہ شعور پیدا کرنا کہ مرد و خواتین کے باہمی تعاون سے ایک خوشحال گھرانہ ممکن ہے . )


خواتین شا مل ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کے معاشی پروگرام کی تعاون اور بااختیار بنانے کے اقدام کی مدد سے اپنی زندگیی میں تبدیلی لائی ہو . اس کے ساتھ ساتھ مہم کی ورا سال کی تھیم (خواتین اور لڑکیوں کے خالاف تشدد کو روکنے کے لیے سرمایہکریں ) رکھا گیا تھا .
کوئٹہ شہر سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ شاہدہ نے بتایا کہ ان کے گھر کے معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے، وقت کے ساتھ ساتھ ان کے والدہ نے سلائی کڑائی کا کام شروع کیا اور اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی اپنی والدہ کی نقش قدم پر چل کر ہنر سیکھنا شروع کیا .

(ہمارے فیملی میں لڑکیوں کو کوم کرنے کی اجازت نہیں تھی مجھے میری امی نے یہ ہمت دی، جس کے بعد میرے والد نے بھی میری حوصلہ افزائی کی اور ، میرے ساتھ اب دس اور خواتین کا کرتی ہے اور ہم ان خواتین سے کشیدہ کاری اور سلائی شدہ کپڑے خرید کر مارکیٹ میں بھیجتے ہیں یہ جو ابھی آپ نے خاکہ دیکھا یہ میری اصلی کہانی تھی . )

صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 دن کی سرگرمی ایک بین االقوامی سول سوسائٹی کی ز یر قیادت ساالنہ مہم ہے . یہ 25 نومبر کو خواتین کے خالف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے شروع ہوتی ہے، اور 10 دسمبر، انسانی حقوق کے دن پر ختم ہوتا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خواتین کے خالاف تشدد دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے ز یادہ خلاف ورز یوں میں سے ایک ہے .

کوئی جواز نہیں مہم کا آغاز موہنجو دڑو سے کیا گیا ہے اور یہ اسالم آباد میں اختتام پذیر ہونے سے پہلے کوئٹہ اور پشاور میں بھی اسکا انعقاد کیا جا رہا ہے . اس اقدام کے پیچھے بنیادی تصور ان شہروں میں تار یخی ڈھانچے کو اورنج کلر کے ساتھ روشن کرنا شامل ہے، اس کے ساتھ خواتین کے معاش ی استحکام کی اہمیت پر مبنی اسٹر یٹ تھیٹر کی کارکردگی بھی شامل تھی .

. .

متعلقہ خبریں