اقلیتوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی خانہ پوری کی حد تک ہے ”


مندرجہ ذیل سرخی پر غورکیجیے .
اقلیتی برادری کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ، اکثریت کے روئیے حوصلہ شکن ہیں .


تحریر : مجیب اللہ
جنرل پرویز مشرف کے کوٹہ سسٹم نے اقلیتوں کو ووٹرز سے ہمارا رشتہ ختم کر کے ہمیں محدود کردیا ، جس کا نقصان یہ ہوا کہ ایوانوں میں جانے والے اقلیتی نمائندے عوام کی خدمت کے بجائے پارٹی قیادت تک محدور ہوکر رہ گئے ، اب اقلیتی آبادی سے تعلق رکھنے والوں کے پاس براہ راست اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق نہیں یہ کہنا ہے
جمعیت علماءاسلام کے صوبائی رہنماءشہزاد کندن جن کا تعلق کرسچن کمیونٹی سے ہے وہ گزشتہ 15سال سے جمعیت علماءاسلام (ف) سے وابستہ ہیں . شہزاد کندن بتاتے ہیں کہ انہوں نے سال 2013میں آزاد امیدوا کی حیثیت سے کوئٹہ میں کونسلر کی نشست کے لئے انتخابات میں حصہ لیا تو انتخابی مہم کے دوران محلے کی حد تک تو ووٹرز نے سپورٹ کیا لیکن محلے سے باہرکے لوگوں نے انہیں اہمیت نہیں دی اس کی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے اقلیتوں کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا .
شہزاد کندن کو یاد ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ایک ووٹر سے ووٹ مانگا جن کے گھر میں 16 ووٹ تھے ، تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ میں اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر آپ کو ووٹ نہیں دے سکتا اور معذرت کرتے ہوئے فون بند کر دیا . شہزاد کندن کہتے ہیں اس واقعہ کے بعدان کی کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کسی بھی اکثریت کے مد مقابل کھڑے ہو کر اکثریتی آبادی سے ووٹ طلب کرسکیں .
ان کا کہنا تھا کہ وہ انہوں نے اپنے حلقے میں کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ ایوان میں پہنچنے کے بعد صرف اور صرف اپنی آبادی کو توجہ دیں گے انہوں نے بتایا ہو سکتا ہے اگر وہ کونسلر بنتے تو وہ اکثریت آبادی کو بھی یکساں توجہ دے کر ان کا اعتماد جیت جاتے اپنے حلقے کے ووٹرد کے زہنوں کونہ جیت سکا جس کی وجہ سے انہیں کونسلر کے انتخابات میں شکست ہوئی .
شہزاد کندن اسمبلی میں اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ خواتین اوراقلیتوں کو بھی جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لے کر ایوان تک پہنچنا چاھئے .
شہزاد کندن نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسوس یہ ہے کہ کوئٹہ میں جن حلقوں میں اقلیتوں کی آبادی زیادہ ہے ان حلقوں میں سیاسی پارٹیاں اقلیتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ نہیں دیتیں جو پارٹی اقلیتوں کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ دے بھی دے تو انہیں دیگر پارٹیز اور معاشرے کی جانب سے عجیب نظر سے دیکھا جاتا ہے ، حلقے میں مد مقابل امیدوا ر بھی اقلیتی امیدوارکے مسلک کو نشانہ بناتے ہوئے ووٹر سے ووٹ مانگتے ہیں .
شہزاد کندن بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی کیریر کے دوران ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ کسی سیاسی جماعت نے اقلیتی امیدوار کو جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ٹکٹ دیا ہو ، وہ پارٹیز جو خود کو لبرل سمجھتی ہیں انہوں نے بھی آج تک کسی اقلیتی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا

انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے مخلوط درجہ انتخاب کی پالیسی سے اقلیتوں کو نقصان پہنچا ہے، اس سسٹم کے تحت ہم صرف پارٹیز کے پابند رہ گئے ہیں . پارٹیز ووکرز کی سیاسی خدمات کو نہیں دیکھتی کوئی بھی نیا شخص پارٹی میں آ جاتاہے تو پارٹیز انہیں نوازنے میں لگ جاتی ہے . لیکن اب ہم مخلوط درجہ انتخاب کا حصہ بن چکے ہیں اس لئے ہمارے پاس برداشت کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں .
آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں دس اور آرٹیکل 106کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں، جن کی تقسیم درج ذیل ہے: سندھ :9، پنجاب:8، بلوچستان:3، خیبرپختونخواہ:4سینٹ میں 4 سیٹیں مختص ہیں . 2002د کی آئینی ترامیم کے مطابق محفوظ نشستوں پر اقلیتی نمائندوں کے انتخاب کا حق، متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو دیا گیا ہے، اس طرح ان تمام نشستوں کو 5 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے .
اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے 2013 میں منارٹیز کے حق میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس میں دستور کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم کرتے ہوئے آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے زیادہ نشستیں مختص کرنے اور اقلیتی برادری کو ووٹ کے دہرے حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا . رمیش کمار2018 میں بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں . پی ڈی ایم کی حکومت میں انہوں نے دوبارہ بل پیش کیا . اس کی پیش رفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے میڈیا کو بتایا "میں نے ایک نہیں پانچ مرتبہ یہ بل پیش کیا، قومی اسمبلی میں کُل سیٹوں کی تعداد جب 207 تھی تب اقلیتوں کی دس سیٹیں مختص کی گئیں، جب 272 ہوگئیں تب بھی یہ سیٹیں 10 رہیں"
ماہر قانون و ممبر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان راحب بلیدی کے مطابق اقلیت کو تقسیم نہیں کرنا چائیے اقلیت کو اقلیت سمجھا جائے ، بد قسمتی سے اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں مختص کر کے انہیں کمزور ظاہر کیا گیا ہے ، ان کے خیال میں اسمبلیوں میں اقلیت اور خواتین کا کوٹہ ختم کر کے اسے اوپن کیا جائے تاکہ اقلیت ہوں یا خواتین وہ جنرل نشستوں پر باقاعدہ انتخابات میں حصہ لے کر ایوان تک پہنچ جائیں . اس صورتحال میں سیاسی پارٹیوں کو چائیے کہ امیدواروں کو ٹکٹ کے اجراءمیں 5فیصد کوٹہ مختص کریں اور اقلیتوں اورخواتین کو ٹکٹ دیں تاکہ وہ ووٹ مانگنے عوام کے پاس جائیں ، اگرہندو، عیسائی یا دیگر کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے امیدوار کوٹکٹ جاری ہو تو وہ اپنی برادری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے پاس بھی جا کر ووٹ طلب کرے گا اس طرح ان کی تقسیم ختم ہو سکتی ہے . تاہم انہوں نے بلوچستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ اقلیتی آبادی سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو کسی بھی سیاسی پارٹی نے ٹکٹ جاری کیا ہو .
شہزاد کندن کی خواہش ہے کہ اقلیتوں کے پاس اپنا نمائندہ چننے کے لئے اختیار ہونا چائیے وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اقلیتی آبادی پہلے سے پسماندہ ہے اور جب اسمبلی میں ان کا نمائندہ نہیں ہوتا تو مایوسی اور بھی بڑھ جاتی ہے . ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم اپنے لوگوں اور ملک کی بہتری کے لئے قانون سازی کریں .
کندن کے مطابق مخصوص نشستوں پر ایوان تک پہنچنے والا ایم پی اے یا ایم این اے اس طرح سے قانون سازی نہیں کرسکتا جس طرح جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے بعد کامیاب ہونے والا امیدوار ایوان میں قانون سازی کرتا ہے جس کی وجہ ان کی پارٹی پالیسی ہے وہ اس سے اختلاف کسی صورت نہیں کر سکتا اگر مخصوص نشست پر ایوان تک آنے والا ممبر اسمبلی اختلاف کرتا ہے تو اسی وقت پارٹی اس کی ممبر شپ ختم کر دیتی ہے
اقلیتوں اور خواتین کو مخصوص نشستوں کے بجائے انتخابی عمل سے گزار کر آنا چائیے تاکہ وہ بھی اپنے لوگوں کے پاس جا کر ان سے ووٹ حاصل کر کے اسمبلیوں تک پہنچ جائیں اور ان کی گنتی بھی الیکٹیبلز میں ہو ں اقلیتوں اور خواتین کو مخصوص نشستوں پر ایوان تک پہنچانے کے بجائے اگر ان کا کوٹہ جنرل نشستوں میں ضم کیا جائے جس سے وہ باقاعدہ انتخابات لڑ کر ایوان تک پہنچ سکیں تو یہ عمل ان کے لیے بہتر ہوسکتا ہے .
شہزاد کندن کہتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں اگر جمعیت علماءاسلام نے جنرل نشست انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ٹکٹ دیا تومیں مکمل طور پر تیارہوں لیکن اگر انہیں پارٹی نے ٹکٹ جاری نہ کیا تب بھی میں ایک عام کار کن کی حیثیت سے پارٹی کے ساتھ منسلک رہوں گا اور پارٹی کی کامیابی کے لئے دن رات کام کرونگا .
بلوچستان اسمبلی کی نشستیں :
بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں خواتین کی 11اور اقلیتوں کی 3 مخصوص نشستیں ہیں . یہ نشستیں سیاسی پارٹیوں کو جنرل الیکشن میں 5 فیصد سے زیادہ نشستیں جیتنے کے بعد الاٹ ہوتی ہیں اور سیاسی پارٹیاں اپنے منظور نظر افراد کو اقلیتوں کی نشستوں پر ٹکٹ دیتی ہیں . اس میں بلوچستان میں بسنے والی اقلیتوں کی رائے شامل نہیں ہوتی .
بلوچستان اسمبلی کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 سے 2023 تک شام لال متحدہ مجلس عمل، ٹائٹس جانسن بلوچستان عوامی پارٹی،خلیل جارج بلوچستان عوامی پارٹی سے رکن اسمبلی رہے . ،سال 2013 سے 2018 تک انیتا عرفان پاکستان مسلم لیگ (ن) گنشام داس مدوانی بلوچ نیشنل پارٹی ، ویلیم جان برکت پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے رکن اسمبلی رہے . ،
سال 2008 سے 2013 تک انجنئیر بسنت لال گلشن لائک مائنڈیڈ گروپ، جعفر جارج پاکستان پیپلز پارٹی، جے پرکاش جمعیت علماءاسلام (ف) سے رکن اسمبلی رہے .
الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں:
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری حلقہ بندیوں کی نئی فہرست کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ کی جنرل نشستوں کی تعداد 8 ہوگی، کچھ کی 4، خضدار 3، پشین 3 جبکہ نصیرآباد اور پنجگور کی 2-2 نشستیں ہوں گی .
صوبائی اسمبلی میں ڑوب کی 1 جنرل نشست جبکہ حب، لسبیلہ، اواران اور گوادر کی بھی 1-1 نشست ہوگی،بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں خاران، نوشکی، سراب، قلات اور مستونگ کی 1-1 جنرل نشست ہوگی جبکہ واسک، قلعہ عبداللہ اور چمن کی بھی 1-1 نشست ہوگی .

بلوچستان اسمبلی میں قلعہ سیف اللہ، موسیٰ خیل، بارکھان، لورالائی، دکی، زیارت، ہرناہی کی 1-1 ایک نشست ہوگی جبکہ سبی، کوہلو، ڈیرا بگٹی، جھل مگسی، کچی کی بھی 1-1 ہی نشست ہوگی .
حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں شیرانی ڑوب کی 1 اور صحبت پور، جعفر آباد، اوستا محمد کی بھی 1-1 نشست ہوگی .
ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان :
ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین جمشید حسین سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے بھی دیگر شہریوں کے برابر حقوق ہیں .
انہوں نے کہا کہ ’قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان آزاد ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اقلیتی برادری کے حقوق اور ان کے مذہبی و ثقافتی آزادی کا ذکر کیا . ‘جمشید حسین کے مطابق یہاں اقلیتی برادری کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کا حل ان کو سیاسی طور پر خودمختار اور مظبوط بنانا ہے، لیکن بدقسمتی
سے آج تک قومی اسمبلی نے کوئی ایسا قانون پاس نہیں کیا جس کی رو سے اقلیتی برادری کی نشستیں بڑھ جائیں . انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر سیاسی جماعتوں کو آواز اٹھانی چاہیے . وہ اقلیتی برادری سے ووٹ تو لیتی ہیں لیکن جب حق دینے کی بات آتی ہے تو وہ حق دینے سے کتراتی ہیں .
مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے نئے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں خواتین کی نشستیں تین سے بڑھا کر 4 کر دی گئی ہیں .
سنئیر صحافی و تجزیہ نگار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ اقلیت بھی پاکستان کے برابر کے شہری ہے اور یہ بات بابا ئے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی بارہا کہی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مزاہب سے تعلق رکھنے والوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں . لیکن ہم نے اپنے اعمال سے اس بات کو محض زبانی جمع خرچ تک محدود کر دیا ، بلوچستان میں بسنے والے اقلیتوں کے انسانی ، آئینی،معاشی ،سماجی اور ثقافتی حقوق کو اسطرح انہیں فراہم نہیں کیا جیسے ہونا چائیے،
انہوں نے کہا کہ ملک میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کو دیکھا جائے تو قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں جنرل نشستوں پر اقلیتوں کو ٹکٹ جاری نہیں کیا جاتا . بلوچستان اسمبلی کے 65 کے ایوان میں اقلیتوں کو صرف4نشستوں تک محدود کیا گیا ہے اور وہ نشستیں بھی پولیٹیکل پارٹیز کی صوا بدید ہے کہ وہ کس کو ایوان تک پہنچائیں ، اور مخصوص نشست پر رکن اسمبلی بننے والے شخص کو نہ ہی وزارت ملتی ہے اور نہ ہی پی ایس ڈی پی میں انہیں مناسب نمائندگی دی جاتی ہے . اقلیتوں کی نشستیں محض جگہ کو پر کرنے کے لئے ہوتی ہیں تاہم عملی طور پر ان کا قانون سازی میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے .
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مسیحی، ہندو،سکھ سمیت دیگر مذہب سے تعلق کھنے والے افراد میں بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کی صوبے اور ملک کی بہتری میں اہم خدمات ہیں انہیں آگے لانا چائےے سیاسی جماعتوں کو چائیے کہ انہیں ٹکٹ دے کر جنرل نشستوں پر انتخابات میں شامل کیا جائے تاکہ محرومیوں کا خاتمہ ہو سکے .
سنئیرصحافی محمد عاطف کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت اگر کسی بھی اقلیتی نمائندے کو کسی بھی حلقے سے بطور امیدوار الیکشن لڑنے کا ٹکٹ جاری کرتی ہے تو حلقے میں موجود سیاسی جماعت کے سپورٹرز کی زمہ داری ہے کہ وہ اس نمائندے کو مسلک سے بالا تر ہو کر بلا تفریق ووٹ دے کیوں کہ حلقے کے سپورٹرز اپنی سیاسی جماعت کے منشور کے ساتھ ہوتے ہیں اورنامزد امیدوار بھی اسی سیاسی منشور کے ساتھ انتخابی ٹکٹ حاصل کر کے الیکشن میں مہم چلاتی ہے اور حلقے کی عوام سے ووٹ مانگتا ہے .
انہوں نے بتایا کہ یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت کم ایسی مثالیں موجود ہیں جس کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو صرف جنرل نشستوں کے بجائے مخصوص نشستوں پر لایا جا تا ہے تاہم یہ مخصوص نشستیں اگر نہ ہوتی تو شاید اقلیتی امیدوار بھی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر انتخابات لڑتے .
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر خواتین جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر اسمبلی کا حصہ بنتی ہے انہیں سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے تو مخصوص نشت پر آنے والے اقلیتی نمائندے کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے .
انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں میں سے کسی جماعت کے اندر اب تک ایسا کوئی تھنک ٹینک نہیںبنا جو اقلیتوں کو جنرل نشستوں پر انتخابات میں شامل کرنے کا سوچیں ،انہوں نے کہا کہ کوٹہ سسٹم میں اقلیتوں اور خواتین کو کمزور ظاہر کیا گیا ہے ، جبکہ پوری دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ، امریکہ کے انتخابات میں بھی دنیابھر سے تعلق رکھنے والے امیدوار حصہ لیتے ہیں اور ان کی اسمبلیوں تک پاکستان اور ہندوستان کے شہری پہنچ چکے ہیں .
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات سربلند جوگیزئی کے مطابق اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے انہیں سیاسی پارٹیاں جنرل نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ٹکٹ جاری نہیں کرتیں . اقلیتوں کی آبادی والے حلقوں میں ان کی تعداد 1ہزار سے 15سو کے لگ بھگ ہوتی ہے تو اس طرح ان علاقوں میں ووٹرز کا ٹرن آوٹ تقریباً 300بھی نہیں ہوتا تو ایسے حلقوں میں ہم اقلیت کی بجائے اکثریت کے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے حلقے کی نشست جیت جائے .
انہوں نے اس بات کر اتفاق کیا کیا کہ قومی شناختی کارڈ رکھنے والااقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کارکن کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا اکثریتی کارکن کا ہے تاہم انہیں مخصوص نشست پر ایوان تک پہنچانے والا طریقہ کار رائج ہے انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ اقلیتی امیدواروں کو بھی پارٹیاں ٹکٹ جاری کریں تاکہ وہ بھی جنرل نشستوں پرالیکشن میں حصہ لے سکیں .
سر بلند جوگیزئی کہتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی یہ نہیں دیکھتی کہ کہ اس کا کارکن کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی تمام مذاہب کے احترام کرتی ہے اوروہ اپنے ہر کارکن کو اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے . انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان پیپلز پارٹی اقلیتوں کو بھی جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کرنے پر سوچ بچار کریگی

. .

متعلقہ خبریں