بلوچستان کے سیاسی دنگل میں خواتین کی نمائندگی صرف کوٹے کی حد تک


تحریر : مجیب اللہ
بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں بھی خواتین سیاسی میدان میں پیش پیش نظر آتی ہیں لیکن سیاسی و قوم پرست پارٹیوں میں خواتین کو 5 فیصد کوٹے کی حد تک رکھا جاتا ہے، عام انتخابات میں بھی خواتین کو مخصوص نشستوں تک محدور کیا گیا ہے . جن خواتین کو پارٹیاں ٹکٹ جاری کرتی ہے وہ خانہ پری کے سوا کچھ نہیں یہ الفاظ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء ثناء درانی کے ہے .

بلوچستان صوبائی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 65 ہے جس میں سے 51 نشستوں پر الیکشن لڑا جاتا ہے اور 3 نشستیں اقلیتی برادری جبکہ 11 نشستیں خواتین کے لئے مخصوص ہیں .
بلوچستان میں خواتین صرف مخصوص نشستوں تک ہی محدود رہتی ہیں اکثر و پیشتر سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں عام انتخابات کے لئے ٹکٹ صرف 5 فی صد کوٹے کو برائے نام پورا کرنے کے لئے دیا جاتا ہے جس سے خواتین کی سیاست میں شراکت داری کم ہوجاتی ہے . دوسری جانب اگر کوئی خاتون رکن اسمبلی بن بھی جاتی ہیں تو انہیں وزارت ملنے کا امکان کم ہی رہتا ہے اگر بات کی جائے بلوچستان میں موجود اقلیت کی تو انہیں عام انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیاں بلکل بھی ٹکٹ جاری نہیں کرتیں انہیں صرف مخصوص نشستوں تک محدود رکھا جاتا ہے .
ثنا درانی جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے بلوچستان کےسیاسی میدان میں فعال نظر آتی ہے وہ بھی اپنے سیاسی کیریر میں موثر نمائندگی نہ ملنے اور پارٹیوں میں نظر انداز ہونے پر شکوہ کناں ہے وہ کہتی ہے کہ بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں میں فیصلہ سازی میں خواتین کو نظر اندار کر دیا جاتا ہے جس وجہ یہ ہے کہ مردوں کا معاشریہ کبھی نہیں چاہتاکہ خواتین جنرل نشستوں پر انتخابات یں حصہ لیں اور ان کے برابر آ سکیں . انتخابات میں خواتین کو نظر انداز کرنے کی حد یہ ہے کہ انہیں کسی قسم کا سپورٹ نہیں دیا جاتاانتخابی مدد فراہم نہیں کی جاتی اور نہ ہی ووٹ بینک خاتون امیدوار کے حق میں استعمال ہوتا ہے .
انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی بننے والی خواتین کو مناسب فنڈز جاری ہوتے ہیں اور پارٹیز کو جاری ہونے والا فنڈ پارٹی کی صوابدید پر ہوتا ہے جہاں وہ چاہے وہاں استعمال کر لیتے ہیں ان میں خواتین کا حلقہ شامل نہیں ہوتا . ''اسمبلیوں میں فیصلہ سازی کے دوران بھی خواتین کو شامل نہیں کیا جاتا نسبتاً الیکٹنڈ مرد کے '' اس وقت تک خواتین کو توانا کردار نہیں دیا جا سکتا جب تک خواتین سیاست دانوں کو پارٹیز اور انتخابات میں مواقعے فراہم نہیں ہوتے .
سال 2018 میں بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی میں ثنا ءدرانی شامل ہوئیں،ثناءدرانی نے کہا کہ'' ہم ان لوگوں میں سے تھے
نئی بننے والی پارٹی جس کا جھنڈا مارکیٹ میں موجود نہیں تھا تو ہم تمام خواتین نے پارٹی کا پرچم خود بنایا'' اور پارٹی کے بہتری کے لئے دن رات ایک کر کے کام کیا لیکن بی اے پی میں خواتین کے لیے تنگ نظری کی انتہا تھی .

انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے خواتین کو پس پشت رکھنے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بی اے پی نے 19اگست 2020کو ایک حکم نامہ جاری کیا کہ اب کوئی بھی خاتون ورکر پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ نہیں آ سکتی اور ان پر پابندی عائد کر دی گئی .
ؓثنا درانی نے بی اے پی کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے وہ کہتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے خواتین کو نچلی سطح سے اٹھا کر اسمبلیوں اور سینٹ تک پہنچایا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت بھی حالات مختلف نہیں یہاں بھی خواتین کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے . پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کو بھی یہ لگتا ہے کہ خواتین کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں اور وہ جنرل نشستوں پر نہیں آ سکتی .
بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی ترجمان کہدہ بابر نے ثنا درانی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بی اے پی نے کبھی خواتین کو نظر اندازنہیں کیا جس کی مثال کچھ یوں ہے کہ بی اے پی میں زبیدہ جلال ثنا جمالی، بشری رند، روبینہ عرفان سمیت سیکڑوں کی تعداد میں خواتین موجود ہے جو پارٹی میں فعال کردار ادا کر رہی ہے . تاہم ثنا درانی کی بی اے پی سے ناراضگی کی بات ہے وہ ان کا زاتی مسئلہ ہوسکتا ہے پارٹی نے کبھی کسی خاتون کے لئے دروازے بند نہیں کئے . بلوچستان عوامی پارٹی نے مختلف اقوام کو پارٹی میں شامل کر رکھا ہے بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والی بشری رند اور پشتون قوم کی لیلی ترین بھی ہماری پارٹی کا اہم حصہ ہے یہ تمام اقوام بی اے پی میں ایک گلدستے کی مانند ہے اور پارٹی میں خواتین کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے .
کہدہ بابر نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں خواتین کے داخلے پر پابندی کے نوٹیفکیشن کا مجھے علم نہیں تاہم 2020 میں جام کمال خان وزیر اعلی اور پارٹی کے صدر تھے شاید انہوں نے خواتین پر پابندی عائد کی ہوگی . 2024 کے عام انتخابات کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی نے خواتین کے لئے واضع اعلان کیا کہ پارٹی کی جو خاتون جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے وہ پارٹی کو درخواست دے جس کے نتیجے میں پارٹی کو خواتین کی جانب سے 31 خواتین نے صوبائی اسمبلی جبکہ خواتین کی 10 درخواستیں قومی اسمبلی کی نشستوں پر موصول ہوئی ہے جس پر پارٹی عمل درآمد کرنے کے لئے مشاورت کر رہی ہے .
ریجنل الیکشن کمیشن بلوچستان نعیم احمد کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 203 کے تحت تمام سیاسی جماعتوں میں خواتین، ٹرانس جینڈر اور معذور افراد کو اپنی پارٹیوں میں شامل کرنے اور انہیں مناسب جگہ دینے کا زکر ہے . قانون کے مطابق سیاسی پارٹیاں پابند ہے کہ انتخابات میں جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو ترجیح دے اور انہیں 5 فیصد خواتین کو بھی جنرل نشستوں پر ٹکٹ جاری کریں . انہوں نے کہا کہ قانون میں خواتین کو نمائدگی دینے کا زکر تو ہے لیکن اگر کوئی سیاسی جماعت اس قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے تو ان کو کیا سزا دی جائے ایسا قانون میں کوئی زکر موجود نہیں .

سنئیر صحافی و سابق صدر بلوچستان یونین آف جرنلسٹ سلمان اشرف کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں میں خواتین کے تحفظات ایک اہم اور سنگین مسئلہ ہے بلوچستان میں قوم پرست اور دیگر سیاسی پارٹیاں جن میں جمعیت علماء اسلام ، مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت دیگر جماعتیں شامل ہے وہ اپنے قریبی عزیزوں کو خواتین کے کوٹے پر ٹکٹ جاری کرتی ہے نہ کہ کارکردگی کی بنیاد پر پارٹی میں فعال خواتین کو تاہم سیاسی پارٹیوں میں چند ایک ایسی مثالیں بھی موجود ہے جہاں انہوں نے خواتین کو ترجیحی دی .
سلمان اشرف کہتے ہیں کہ بلوچستان کی خواتین کو موقع فراہم کیا جائے تو وہ جنرل نشستوں پر بھی کامیاب ہوکر اپنا لوہا منوا سکتی ہے جس کی مثال 2002 سے 2008 کی بلوچستان اسمبلی میں بارکھان کی نشست پر بیکم نسرین کھتران مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر جنرل نشست پر کامیاب ہوئیں، جس کے بعد 2008 سے 2013 کی اسمبلی میں بھی بیگم نسرین کھیتران نے جنرل نشست پر کامیابی کے روایت برقرار رکھی . نصر آباد اور جعفرآباد کے علاقے سے فائق بی بی جمالی بھی جنرل نشست پر کامیاب ہوئی ہے . ان دونوں خواتین کو دیکھا جائے تو ان کا کافی مضبوط سیاسی پس منظر ہے بیگم نسرین کھیتران کے شوہر سردار عبدالرحمن کھیتران اسی نشست پر بارہا کامیاب ہوئے اور راحت بی بی جمالی کے شوہر فائق جمالی کامیاب ہوتے رہے تو اس طرح انشستوں کو ان کا خاندانی نشست بھی کہا جا سکتا ہے .
سلمان اشرف کے مطابق 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست پر راحیلہ حمید درانی کو ٹکٹ جاری کیا گیا تھا اور راحلیہ حمید درانی کو بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے . جبکہ راحیلہ حمید درانی نے ایکٹنگ گورنر کے فرائض بھی سر انجام دئیے .
بلوچستان کے سیاسی میدان میں آہستہ آہستہ تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے بیک جنبش قلم تبدیلی نہیں آ سکتی . بلوچستان میں قبائلی نظام کے باعث تبدیلی میں وقف لگ سکتا ہے لیکن آنے والے دور میں خواتین سے متعلق چیزیں مثبت طور پرتبدیل ہو جائے گی .

سیاسی پارٹیوں میں خواتین اور اقلیتی ونگز تو موجود ہے لیکن انہیں پارٹی میں برائے نام رکھا گیا ہے، سیاسی پارٹیاں کوٹے کو پورا کرنے کے لئے خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ جو جاری کردیتی ہے لیکن ان کی موثر پشت پنائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو پاتی اور اسطرح انہیں دوبارہ کبھی بھی ٹکٹ جاری نہیں ہوتا .
مثال کے طور پر 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 کوئٹہ 2 پر پاکستان تحریک انصاف کے قاسم سوری 25 ہزار 9 سو 73 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے اسی حلقے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی خاتون امیدوار راحیلہ حمید درانی نے9 ہزار 9 سو 31 جبکہ نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی صرف 2 سو 29 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی .
اسی طرح قومی اسمبلی کی نشست این اے 266 کوئٹہ 3 پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے آغا حسن بلوچ 20 ہزار 34 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ بلوچستان نیشنل موومنٹ کی بی بی نسرین گل صرف 78 ووٹ لے سکی . خضدار سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 269 پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل 52 ہزار 8 سو 75 ووٹ لیکر . کامیاب ہوئے ہوئے جبکہ خاتون آزاد امیدوار فوزیہ سکندر صرف 560 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی .

. .

متعلقہ خبریں