عام انتخابات: بلوچستان میں امیدواران کا انتخابی مہم سست روی کا شکار کیوں ؟

مطیع اللہ مطیع
ملک بھر سمیت بلوچستان میں بھی 8فروری کو انتخابات ہورہے ہیں . انتخابی شیڈول کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی جانب سے 20دسمبر سے 24دسمبر تک کاغذات نامزدگی وصول اور جمع کرانے کا سلسلہ جاری رہا اور 25دسمبر سے 30دسمبر تک ریٹرننگ آفیسران کی جانب سے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال وسکروٹنی کا عمل جاری رہا .


بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس عامر نواز رانا پرمشتمل اپیلٹ ٹریبونلز نے تمام404اپیلیں نمٹاتے ہوئے353اپیلیں منظور جبکہ 51اپیلیں خارج کردیں .
الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی شیڈول کے مطابق 11جنوری کو امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرست ،12جنوری کاغذات نامزدگی واپس لینے اور دوبارہ نظرثانی شدہ فہرت آویزاں ،13جنوری کو امیدواروں کونشانات الاٹ کرنے کا دن تھا الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدواروں کو نشانات الاٹ کئے گئے ،امیدواروں کی حتمی فہرست آواز کرنے کے بعد 1928امیدوار میدان میں رہ گئے .
انتخابات کے دوڑ سے 491امیدوار باہر ہوگئے جس میں کاغذات نامزدگی مسترد ہونے یا پھر واپس لینے والے شامل ہیں .
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ حتمی فہرست کے مطابق بلوچستان سے قومی اسمبلی کے 16 نشستوں پر 631 میں 442 امیدوار میدان میں رہ گئے جس 14 خواتین اور 428 مرد شامل ہیں . بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے 51 نشستوں کیلئے 1788 میں 1486 امیدوار میدان میں رہ گئے جن میں 38 خواتین اور 1248 مرد شامل ہیں . ریٹرننگ آفیسران کی جانب قومی اسمبلی کے92 اور صوبائی اسمبلی کے 386امیدواروں کی کاغذات نامزدگی مسترد کردی تھی .
الیکشن شیڈول جاری ہوگئی تھی تاہم بہت سی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم شروع نہ کی جاسکی تھی جس میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے یا سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم نہ ہونا تھی .
غلام نبی مری بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ضلع کوئٹہ کے صدر کے ساتھ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 264کے امیدوار بھی ہے . وہ کہتے ہیں کہ نگران حکومت پر روز اول سے بی این پی کے تحفظات اور خدشات ہیں اور بارہا ہم نے اپنے تحفظات کااظہار کیاہے .
غلام نبی مری کہتے ہیں کہ پہلے انتخابات میں ،ڈی آراوز اور آر اوز جوڈیشری سے ہوا کرتے تھے اور اب انتظامیہ سے لئے ہیں ریٹرننگ آفیسران نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل سمیت پارٹی کے دیگر امیدواروں کی کاغذات نامزدگی کو معمولی اعتراضات لگا کر مسترد کئے تھے اور ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے پارٹی کو انتخابات میں عوام سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،ہماری توجہ اپیلٹ ٹریبونل پر ہے .
وہ کہتے ہیں کہ اپیلٹ ٹریبونلز کی جانب سے آر اوز کے فیصلوں کو کالعدم قراردیاجارہاہے خضدار، قلات اور وڈھ سے متعلق اپیلیں زیر سماعت ہیں جانبدارانہ نگران حکومت اور انتظامی آفیسران کی وجہ سے اب تک شروع نہ ہوسکی البتہ کوشش ہے کہ اپیلوں سے فارغ ہوکر سیاسی سرگرمیاں شروع کریں .
پاکستان تحریک انصاف کے حلقہ پی بی 42پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے سید جمیل آغا ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ الیکشن شیڈول کے بعد انتخابی مہم تو شروع نہ ہوسکا البتہ ایسا لگ رہاہے جیسے صرف ہائی کورٹ میں انتخابات ہورہے ہیں ،انتخابات کیلئے بڑی تعداد میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کی وجہ سے زیادہ تر توجہ اپیلٹ ٹریبونل پر ہے جس میں اکثریت پی ٹی آئی کاہے .
جمیل آغا کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپیلٹ ٹریبونل سے نکلے گی تو مہم پر توجہ دے گی بدقسمتی سے اس بار دیگر سیاسی جماعتیں بھی انتخابی مہم میں سستی سے دوچار ہیں ایک ماہ سے کم عرصہ رہ گیاہے لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے انتخابی گرما گرمی نظر نہیں آرہی نہ ہی عوام میں گرم جوشی نظرآرہی ہے . کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات سے دور رکھاجائے البتہ عوام اس عمل کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے .
انتخابی مہم شروع نہ کرنے والوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کی ثناء درانی بھی تھی جس نے پارٹی کی جانب سے خواتین کونظرانداز کرنے پر جمہوری طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تاہم اس کے باوجود ان کے تحفظات دور نہ ہوسکے .
سماجی رضاکار سول سوسائٹی کی حمایت یافتہ ثنا درانی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے خواتین کو مسلسل نظرانداز کرنے پر عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے لیپ ٹاپ کے نشان پر انتخابات میں حصہ لینے کااعلان کیاہے .
ثناء درانی کہتی ہے کہ انہوں نے اپنے حمایتی ساتھیوںخصوصا خواتین کی اسرار پر الیکشن میں حصہ لینے کافیصلہ کیا ہے ،پارٹی میں جدوجہد کرنے والی خواتین کونظرانداز کرنے کی پارٹی سے توقع نہیں تھی . وہ کہتی ہے کہ
پشتون اضلاع میںخواتین کومسلسل نظر انداز ہلکہ لینے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جڑیں نکلنے سے پہلے ہی مرجھاجاتی ہیں صوبائی اور مرکزی قیادت پشتون ضلعوں کابینہ کے تحفظات کو فوری توجہ دے اسطرح جیالے ورکرز کو مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے عام انتخابات مین پارٹی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے .
پارٹی قیادت کی جانب سے پارٹی ٹکٹس ضائع کرنے جیسا عمل بلخصوص کوئٹہ میں خواتین امیدواروں کو نظرانداز کرنے سے خواتین مایوس ہوئی ،آواز اٹھانے کی وجہ سے اپنی انتخابی مہم شروع نہ کرسکی لیکن اب تسلسل کے ساتھ مہم شروع کررہی ہے . پی بی 43سے لیپ ٹاپ کے نشان سے عوام کے سامنے منشور رکھ رہی ہوں ،کوئٹہ کی عوام بلخصوص خواتین باشعور ہے .
سینئر صحافی امین اللہ مشوانی پاکستان میں گزشتہ 3انتخابات کو عام انتخابات2024 سے الگ قرار دے رہے ہیں . امین اللہ مشوانی کہتے ہیں کہ گزشتہ تین انتخابات 2008 ،2013 اور 2018 میں انتخابات کے حوالے سے الگ سا ماحول تھا لیکن اس بار ایسا معلوم نہیں ہورہا جب بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوام بھی پرجوش نظرآتے تھے لیکن اس بار 400سے زائد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی معمولی اعتراضات مسترد کئے گئے .
امین اللہ مشوانی کہتے ہیں کہ انتخابی مہم سے زیادہ امیدوار ہائی کورٹ میں پھیرتے نظرآرہے ہیں جبکہ دوسری اہم وجہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹ کااعلان دیر سے کرناہے انتخابی شیڈول کے بعد ایک ہفتے تک تو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ(ن)نے ٹکٹ کااعلان نہیں کیاتھا جبکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹس کااعلان اب تک نہیں ہوسکاہے . اسی طرح جمعیت علما اسلام ہے .
صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز انور چوہان کہتے ہیں کہ آزادانہ ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی ذمہ داری اور اولین ترجیح ہے لہذا تمام پولنگ سٹاف کو تربیتی نشستوں کے دوران ہدایات جاری کی ہے کہ غیر جانبدار رہ کر انتخابات کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنی تر توانائیاں بروئے کار لائیں .
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو یکساں انتخابی ماحول فراہم کیا جا سکے .
انتخابات کے تمام عمل کی نگرانی کیلئے مانٹرنگ سیل بنائے گئے ہیں، انتخابات کے تمام عمل کی مانٹرنگ کی جارہی ہے، بلوچستان بھر میں5067 پولنگ اسٹیشنز کی ابتدائی فہرست جاری کردی ہے .
ابتدائی لسٹ پر ہر حلقہ کا کوئی بھی ووٹر یا امیدوار اعترض ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے پاس مورخہ 11 جنوری 2024 تک جمع کر وا سکتا ہے، 17 جنوری تک ڈسٹر کٹ ریٹرننگ آفیسران اعتراضات و تجاویز پر فیصلہ دیں گے .
نارمل پولنگ اسٹشن 829اور احساس 2180 اور انتہائی احساس پولنگ اسٹشن کی تعداد 2058 ہے بلوچستان بھر میں52,234 انتخابی عملہ، جن میں اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز، پولنگ آفیسرز، پریذائڈنگ آفیسرز اور سینئرپریذائڈنگ آفیسرز کی مرحلہ وار تربیت کرائی جا رہی ہے .
الیکشن ٹریبونلز قائم ہوچکے ہیں جو تسلسل کے ساتھ اپنا کام کررہے ہیں .
جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ پر مشتمل الیکشن ٹریبونل 1 نے کل 199 الیکشن اپیلوں کی سماعت کی، جن میں سے 174 اپیلیں منظور اور 25 اپیلیں خارج ہوئیں جبکہ جناب جسٹس محمد عامر نواز رانا پر مشتمل الیکشن ٹریبونل 2 نے کل 205 الیکشن اپیلوں کی سماعت کی جن میں سے 179 اپیلیں منظور اور 26 اپیلیں خارج ہوئیں .

. .

متعلقہ خبریں