سعودی عرب اور ایران مصالحت کا ایک سال

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ابھی حال ہی میں 10 مارچ کو چین کی ثالثی کے ذریعے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کو ایک سال مکمل ہوا ہے . گزشتہ ایک سال کے دوران، سعودی عرب اور ایران کے تعلقات نے علاقائی خلفشار کا بھی سامنا کیا ہے لیکن دونوں ممالک کے عوام اور خطے کے لئے امن کوششوں کے ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں .

یہ تاریخی مصالحت نہ صرف علاقائی امن کے لیے چین کے عزم کی عکاسی کرتی ہے بلکہ مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی گئی ہے . اسی باعث آج بھی چین کی امن کی وکالت مشرق وسطیٰ کے ممالک میں گونج رہی ہے . ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل تنازع مشرق وسطیٰ کے استحکام کو متاثر کیے ہوئے ہے، خطے کے ممالک امن کی بحالی میں مدد کے لیے مزید امن کوششوں کے خواہاں ہیں . یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازع مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا ایک بڑا سبب تھا . یمن اور شام جیسے ممالک میں مخالف قوتوں کی پشت پناہی ، پراکسی فوجی تنازعات سمیت متعدد معاملات پر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات تھے . 2016 میں سعودی عرب نے ایران میں سعودی سفارتی مشنز پر حملوں کے جواب میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے . دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے حصول میں مدد کے لیے چین نے ثالث کا کردار ادا کیا اور ان کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے متحارب فریقوں کے درمیان رابطے اور بات چیت کو آسان بنایا . 10مارچ 2023 کو بیجنگ میں چین کے ساتھ جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں ، سعودی عرب اور ایران نے اعلان کیا کہ وہ دو ماہ کے اندر اپنے سفارت خانے اور سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کے معاہدے پر پہنچ گئے ہیں ، جو ان کے سرد تعلقات کے پگھلنے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے . 6 اپریل2023 کو, سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان نے بیجنگ میں ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے جس میں سفارتی تعلقات کی فوری بحالی کا اعلان کیا گیا . چین کی جانب سے سعودی عرب ایران مصالحت کی سہولت کاری نے مشرق وسطیٰ ممالک کے درمیان تناؤ کی صورت حال کو کم کرنے میں ایک نئے محرک کا کام کیا . اس کے کچھ ہی عرصے بعد مشرق وسطیٰ کے امن عمل میں کئی مثبت پیش رفت سامنے آئیں، شام 12 سال کے وقفے کے بعد عرب لیگ میں واپس آیا، قطر اور بحرین نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا، ایران، ترکی اور مصر کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی اور یمن میں کشیدگی کم ہو گئی . یہی وجہ ہے کہ عالمی مبصرین اسے مذاکرات اور امن کی فتح قرار دیتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ کو سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے ایک نیا فارمولہ پیش کرتا ہے . گزشتہ ایک سال کے دوران سعودی عرب اور ایران مصالحت کی بنیاد پر سیاست اور معیشت سمیت مختلف شعبوں میں تبادلوں میں پیش رفت کر رہے ہیں . تعلقات کے دوبارہ آغاز کے چند روز بعد ایران کی ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کے مغربی ایشیا کے ڈائریکٹر فرزاد پلتان نے اعلان کیا کہ مختصر مدت میں سیاسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی سے دونوں ممالک ایک ارب ڈالر کی تجارت حاصل کرسکیں گے جس میں درمیانی مدت میں مزید 2 ارب ڈالر تک توسیع کے امکانات ہیں . ستمبر 2023 میں ، سعودی عرب میں نئے ایرانی سفیر ، علی رضا عنایتی ریاض پہنچے . اسی دن ایران میں سعودی عرب کے نئے سفیر عبداللہ بن سعود الانزی نے تہران میں اپنے سفارتی فرائض کا آغاز کیا . اکتوبر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان آل سعود کے ساتھ پہلی ٹیلی فونک بات چیت کی، جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان نئے تنازع پر دونوں ممالک کے موقف کا تعین کیا گیا . ایک ماہ بعد سعودی عرب کی دعوت پر رئیسی مسئلہ فلسطین پر مشترکہ عرب اسلامی سمٹ میں شرکت کے لیے ریاض پہنچے اور سعودی عرب کے ولی عہد سے ملاقات کی . اسی تناظر میں مبصرین سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والی قریبی بات چیت توقع سے کہیں زیادہ بہتر ثابت ہوئی ہے . آج ،اپنے بڑھتے ہوئے تعلقات سے دونوں ممالک بیرونی دنیا کو ایک واضح پیغام دے رہے ہیں کہ پائیدار امن صرف مخلصانہ بات چیت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے . اس وقت اسرائیل اور حماس کا تنازع مشرق وسطیٰ میں دیرینہ امن کوششوں کے لیے سنگین خطرہ بن رہا ہے . ایسے پس منظر میں چین کی جانب سے ایک مرتبہ پھر تنازعات کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کی وکالت جاری ہے . چین چاہتا ہے کہ ایک ایسی علاقائی صورتحال پیدا کریں جہاں تعاون کو محاذ آرائی پر فوقیت حاصل ہو . سلامتی کے حصول کے لیے چین کا نقطہ نظر مشرق وسطیٰ ممالک کی پرامن ترقی کی امنگوں سے مطابقت رکھتا ہے . ماہرین کے خیال میں مشرق وسطیٰ اور دنیا کو زیادہ پرامن بنانے کے لیے چین جیسے زیادہ سے زیادہ امن شراکت داروں کی شرکت کی ضرورت ہے . . .

متعلقہ خبریں