ام المومنین حضرتِ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)دس رمضان المبارک یوم ِ وفات ہے عظیم القدر ہستی، ملیکۃ العرب اور بے مِثل شخصیت حضرتِ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا . آپؓ سے حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کو بہت پیار تھا، بڑی محبّت تھی، اِس لیے کہ آپؓ حضور ﷺ کے کڑے وقت کی ساتھی تھیں .


کسی نے کہا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! جب خدیجہؓ کا نام آتا ہے تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں . نبی مکرّم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’خدیجہ ؓ نے اُس وقت میرا ساتھ دیا جب کوئی میرا ساتھ دینے والا نہیں تھا . میں تنہا تھا خدیجۃ الکبریٰ ؓنے میرا ساتھ دیا . میرے پاس پیسا نہیں تھا . میرے پاس دولت نہیں تھی . تبلیغِ دین میں دولت کی ضرورت تھی، پیسے کی ضرورت تھی، مجھے خدیجہ ؓ نے اپنا مال دے دیا . ‘‘
کائنات میںسب سے افضل بی بی فاطمہؓ، سیّدۃ النساء العالمینؓ، جو عالمین کی عورتوں کی سیّدہ ؓ ہیں، اُن کی ماں خدیجہ ؓ ہیں، یہ فضیلت ہے آپؓ کی .
دو بڑی مصیبتیں پروردگارِ عالم نے نبی مکرّم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کوایک سال میں دی ہیں . ایک اپنے پیارے چچا کی رحلت اور ایک حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی رحلت . نبی کریم ﷺ نے ایک سال تک سوگ منایا . ایک سال، عام الحزن . سال بھر غم منایا ہے اپنے چچا اور اپنی زوجہ حضرتِ خدیجہ ؓ کا .
بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ایک لقب ہے سیّدۃ التّجار، تاجروں کی سیّدہؓ . جب بازارِ عکّاظ لگتا تھا تو اُس میں آنے والے تاجر اُس وقت تک مارکیٹ کے اُصول طے نہیں کرتے تھے، دام طے نہیں کرتے تھے اُس سال کی مارکیٹ کے آداب طے نہیں کرتے تھے، جب تک کہ حضرتِ خدیجہؓ سے ملاقات نہ ہو . اُس وقت تک یہ طے نہیں ہوتا تھا کہ اس سال بازارِ عکّاظ کا نظام کیا ہوگا، کاروبار کیسے چلے گا، کب تک چلے گا، فلاں چیز کے نرخ کیا ہوں گے، فلاں چیز کے کیا ہوں گے .
حضرتِ خدیجہؓ کے گھر میں نشست ہوتی تھی اور بی بیؓ کے مشورے سے، بی بیؓ کے کہنے کے مطابق وہ طے پاتا تھا . ایک پردہ آویزاں ہوتا تھا، سیّدہ ؓ اُس طرف بیٹھی ہوتی تھیں، اِدھر سارے تاجر بیٹھے ہوتے تھے . اور پھر کہا جاتا تھا کہ کہاں جارہے ہو اور کہاں سے آئے ہو . تو وہ کہتے تھے، سیّدہؓ کے پاس سے آئے ہیں . تاجر جنابِ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو جنابِ سیّدہؓ کہتے تھے .
جنابِ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس اپنے بابا کا مال تھا . اَن گنت بیواؤں، یتیموں، مساکین، اسیروں، معذور افراد اور مستحقین کی خاموشی سے مدد کرتی تھیں . معاشرے کے محروم اور کم زور افراد کے وظائف مقرر کررکھے تھے .
عجیب اتفاق ہے، عجیب حُسن ہے تاریخ کا، جس دَور میں بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا ہو، جس دَور میں خواتین کی کوئی وُقعت نہ ہو، احترام نہ ہو، اُس دَور میں ایک بہت بڑے تاجر حضرت خویلد کا سارا مال اور سارا مالِ تجارت اور سارا کاروبار ایک بیٹی کے حوالے کیا جا رہا ہے اور بیٹی بھی ثابت کررہی ہے کہ لڑکیاں کتنی ذہین ہوسکتی ہیں، عورتیں کتنی سمجھ دار ہو سکتی ہیں . خواتین توجّہ فرمائیں، ذرا اس نکتے پر غور فرمائیں .
حضرت خدیجہ ؓ کی بے کراں عظمت، سارا مال حضرت خدیجہؓ نے نبی مکرّم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے حوالے کردیا اور اسلام کی تبلیغ میں، ابتدائی دَور میں . پھر تو مسلمان ماشاء اﷲ بڑھتے چلے گئے . علی کرم اﷲ وجہہٗ نے بھی ’’نہج البلاغہ‘‘ میں فرمایا ہے، صحابۂ کرامؓ کے بارے میں، پورا خطبہ دیا ہے صحابہؓ کی عظمت پہ . صحابہؓ کی عظمت جناب علی کرم اﷲ وجہہٗ سے کوئی پوچھے . اور ہمیں اُس عظمت کا احترام کرنا چاہیے اور اُس کو دہرانا بھی چاہیے .
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے کڑے وقت کے ساتھی، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی پریشانیوں میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھ دینے والے، و ہ بدر میں شہید ہونے والے صحابۂ کرامؓ، وہ جنگوں اور غزوات میں اپنی جانیں قربان کر دینے والے جاں نثار صحابۂ کرامؓ . سلام ہو صحابۂ کرام ؓ کی عظمت پر .
حضرت خدیجہ ؓ نے اپنا سارا مال اسلام کی ترویج کے لیے دے دیا . قریش کی عورتوں نے جب ٹوکنا شروع کیا کہ تم نے یہ کیا کِیا؟ تو آپ نبی مکرّم ﷺ کی شان کے خلاف ایک جملہ بھی سُننے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھیں . کوئی سرکارؐ کی مخالفت میں بات کرتا تھا، تو بی بیؓ اُسے برداشت نہیں کرتی تھیں . یہ بی بی اور شوہر کے رشتے کی بنیاد پہ نہیں تھا، ایمان کے رشتے کی بنیاد پر تھا . آپؓ نے سارے شہر سے اپنا تعلق توڑ لیا، مگر اﷲ کے رسولؐ سے اپنا تعلق مضبوط کردیا .
جب جنابِ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی رحلت ہو رہی ہے، تو بی بیؓ تپ کی کیفیت میں دنیا سے گئی ہیں . آپؓ بسترِ علالت پر تشریف فرما تھیں، آپؓ نے دیکھا کہ بی بی فاطمہ ؓ کم سنی کی کیفیت میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ صحنِ خانہ میں کھیل رہی ہیں . اُسی اثناء میں نبی مکرّم ﷺ کی گھر میں آمد ہوئی، تو نبی مکرّم ؐ سے فرمانے لگیں کہ میری فاطمہ ؓ کا خیال رکھیے گا، وصیتیں فرمائیں اور فرمایا: ’’میری ساری چیزیں، جب فاطمہ ؓ کی شادی ہو تو میری ذاتی ساری چیزیں فاطمہؓ کو دے دیجیے گا . اور اے اﷲ کے رسولؐ! جب فاطمہؓ کو رخصت کرنے لگیں تو اسے اکیلا مت چھوڑیے گا . اِس کے ساتھ گھر کی ایک خاتون ضرور بھیجیے گا . نئے گھر میں جاکر مانوس ہونے میں اِسے وقت لگے گا . ‘‘
ہمارے ہاں دستور ہے کہ جب بچی رخصت ہوتی ہے تو گھر کی کوئی عورت ساتھ جاتی ہے . سب سے پہلے حضرت پیغمبر اکرم ﷺ نے جنابِ زہرا ؓ کے ساتھ ایک خاتون کو بھیجا ہے . اپنی زوجہ بی بی اُمِّ سلمہؓ کو بھیجا ہے . اور یہ سُنّت بن گئی کہ لڑکی کو جب رخصت کریں تو اُس کے ساتھ ایک بی بی کو ضرور بھیجیں .
نبی مکرّم ؐ چلے گئے . حضرتِ فاطمہ ؓ کو قریب بُلا کر کہا: فاطمہؓ! اپنے بابا سے کہو، میرے پاس کفن نہیں ہے، وہ اپنے کُرتے میں مجھے دفنائیں . پیغمبرؐ سے کہو کہ پیغمبرؐ مجھے اپنے کرتے میں دفنائیں . جنابِ فاطمہ زہرا ؓنے اپنے بابا سے کہا: بابا! میری ماں کہہ رہی ہیں میرے پاس کفن نہیں ہے، مجھے اپنے کُرتے میں دفنائیں . جب جنابِ خدیجہ ؓ کی رحلت ہوئی، پیغمبر اکرمؐ نے اپنے کُرتے میں کفن دیا ہے، جنابِ خدیجہؓ کو . قبر میں اُترے ہیں اور خاک سے مخاطب ہوئے ہیں، لحد سے مخاطب ہوئے ہیں: ’’خبردار! یہ فاطمہ ؓ کی ماں ہے . خبردار! اِس نے اﷲ کے رسولؐ پہ احسان کیے ہیں . خبردار! فشارِ قبر خدیجۃ الکبریٰ ؓپہ نہ ہونے پائے . ‘‘
جناب خدیجہ ؓ کی قبر میں پہلے خود لیٹے ہیں، تب جنابِ خدیجہ ؓ کو قبر میں اُتارا ہے . ہم سب کا سلام ہو .
عشقِ رسولِ پاکؐ ہی میں منہمک رہیں
بی بی خدیجہ ؓ آپ کی عظمت پہ السّلام

. .

متعلقہ خبریں