عمران خان نے انٹرویو میں کہا کہ ہم تحریک طالبان کے چند گروپوں کے ساتھ افغانستان میں بات چیت کر رہے ہیں، کالعدم تحریک طالبان ہتھیار ڈال دیں توہم انہیں معاف کر دیں گے، مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے، ہم بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں، اور ان میں سے جو گروپس مفاہمت کے خواہش مند ہیں، ہم ان سے سیاسی مفاہمت کرنے کی کوشش کررہے ہیں . عمران خان نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ افغانستان کا سیاسی حل نکالنے کی ضرورت ہے، دہشت گردی کا حل ڈرون حملے نہیں، سوال یہ ہے کہ امریکا طالبان کو کب تسلیم کرے گا، کیونکہ صرف پاکستان کے طالبان کو تسلیم کرنے سے فرق نہیں پڑتا، امریکا، یورپ ، چین اور روس کو بھی افغان طالبان کو تسلیم کرنا ہوگا، امریکی قربانی کے بکرے کی تلاش میں ہیں . وزیراعظم نے بتایا کہ افغانستان میں حکومت سازی میں مداخلت ختم کرنا ہوگی، پاکستان چاہتا ہے افغانستان میں جامع حکومت ہو، افغانستان نے کبھی بیرونی طاقتوں کو قبول نہیں کیا، افغان شہری غیر ملکی تسلط تسلیم نہیں کرتے، افغانستان میں افراتفری پھیلنے سے سب سے زیادہ نقصان افغان شہریوں کو ہوگا، سرحد کے دونوں جانب پشتون عوام رہتے ہیں . عمران خان کا کہنا تھا کہ افغان صورتحال کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، نائن الیون واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، صدر بش کا پاکستان کو یہ کہنا کہ ہمارے ساتھ ہو یا نہیں تکبرانہ رویہ تھا، جنرل کیانی نے بھی امریکی صدر اوباما کو آگاہ کیا تھا کہ افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں ہے . عمران خان نے مزید کہا کہ امریکی پالسیوں پر تنقید کروں تو امریکا مخالف کہا جاتا ہے، ادھر پاکستانی طالبان ہمیں امریکا کا حامی کہہ کر ہم پر حملے کرتے ہیں، پاکستان کو تعریف کے بجائے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پاکستانی اور امریکی وزرائے خارجہ رابطے میں ہیں، پاکستان کی سیکورٹی انٹیلی جنس کے سربراہ بھی امریکی سیکورٹی انٹیلی جنس کے سربراہ کے ساتھ رابطے میں ہیں . . .
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں .
وزیراعظم عمران خان کی ترک ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں .
متعلقہ خبریں