بارڈر بندش سے سماج پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے,کبیر محمد شہی

تربت(قدرت روزنامہ) نیشنل پارٹی کے مرکزی سنیئرنائب صدر سابق سینیٹرمیرکبیرمحمد شہی نے کہاہے کہ بارڈر بندش سے معاشی بدحالی کے باعث سماج پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے، ٹوکن سسٹم ختم کیاجائے، بارڈر انٹری پوائنٹس 3سے بڑھاکر10کردئیے جائیں، چیک پوسٹوں پر بلوچ قوم کی تضحیک وتذلیل بندکیاجائے، حکومتی پالیسیوں نے پاکستان کو دنیابھرمیں تنہاکردیاہے،الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم ووٹ چوری کا جدید حربہ ہے جسے مستردکرتے ہیں ان خیالات کااظہار انہوں نے منگل کے روز سرکٹ ہاؤس تربت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمدبلیدی ودیگر رہنما ان کے ہمراہ تھے، میرکبیرمحمد شہی نے کہاکہ بلوچستان میں روزگارکے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے عوام خود اپنے طورپر بارڈر سے کاروبار کرکے اپنے بچوں کیلئے روزی روٹی کابندوبست کرتے آرہے ہیں مگرنااہل حکمران جو ایک کروڑ نوکری اور50لاکھ گھروں کے نعرے کی بنیادپر عوام پر مسلط کئے گئے ہیں یہ حکمران بغیرکسی منصوبہ بندی اور منظم پالیسی کے عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کرتے آرہے ہیں گزشتہ ڈیڑھ سال سے دانستہ طورپر بارڈر پر مختلف رکاوٹیں اور قدغنیں ڈال کر بارڈر بندکرنے کی کوششیں جاری ہیں اس اقدام سے بلوچستان کے 21لاکھ لوگ بے روزگارہوجائیں گے جس سے سماج میں بے چینی اور اضطراب بڑھے گی، نوجوان رہزنی، چوری، منشیات اورمنفی سرگرمیوں کا حصہ بن سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم نے یہ معاملہ سینٹ آف پاکستان میں اٹھایا گیا اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے باقاعدہ فیصلہ دیاکہ بارڈر ٹریڈ سے متاثرہ لوگوں کیلئے جب تک متبادل روزگارکاانتظام نہیں ہوتاتب تک بارڈر کوچلنے دیاجائے، بارڈر کاروبارکوبند کرنے کے بجائے اسے قانونی شکل دی جائے انہوں نے کہاکہ بارڈر سے آنے والی گاڑیاں جہاں جہاں جاتے ہیں وہاں پر مختلف محکموں اوراداروں کے لوگ ان سے جبری بھتہ لیتے ہیں جو انتہائی قابل مذمت ہے، انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ملک میں غربت، بے روزگاری، پسماندگی، بھوک وافلاس بڑھتی جارہی ہے، بدقسمتی سے آئین پرکوئی عملدرآمدنہیں ہوتا، اس وقت ملک میں 2پاکستان ہیں پہلے پاکستان یعنی سندھ، کے پی کے، پنجاب میں 22سے30فیصد لوگ غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزاررہے ہیں جبکہ دوسرے پاکستان یعنی بلوچستان مین70سے75فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں جن کے بارے میں سوچانہیں جاتا، انہوں نے کہاکہ بلوچستان کو ڈاکٹرعبدالمالک اورنیشنل پارٹی نے اپنے دور میں آگ کے دریا سے نکال کر امن وآشتی کے راستے پر ڈال دیاتھا وہ شہر جہاں شام کو کرفیو کاسماں ہوتاتھا وہ شاہراہیں جہاں اغواء برائے تاوان عام تھے انہیں محفوظ بنایا، ڈاکٹرمالک نے اپنی سیاسی بصیرت اور وژن کی بدولت بلوچستان میں ترقی کے ایک نئے سفر کاآغازکیا مگر آج بلوچستان کو پھر کشت وخون کاآماجگاہ بنایا جارہاہے صرف ایک مہینہ میں پنجگورمیں 32لوگ بے گناہ شہید کئے گئے ہیں، ہماری مائیں بہنیں اوربچے محفوظ نہیں ہیں، انہوں نے کہاکہ64ارب ڈالر کے سی پیک جسے گیم چینجر اور ملک کی قسمت بدلنے کامنصوبہ کہاگیا، بلوچستان کی خوشحالی کے سہانے خواب دکھائے گئے مگر ترقی وخوشحالی اپنی جگہ سی پیک سے بلوچستان کے لوگوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں، سی پیک کے اربوں ڈالر کے ہوتے ہوئے مکران ڈویژن کو نیشنل گرڈسے بھی منسلک نہ کیاجاسکا حالانکہ اس سلسلے میں ڈاکٹرمالک نے اپنے دور میں مکران کومستقبل میں بجلی بحرانوں سے بچانے کیلئے مکران ڈویژن کو نیشنل گرڈسے منسلک کرنے کا پروپوزل بناکر دیاتھا جسے بعدمیں سردخانے میں ڈال دیاگیا انہوں نے کہاکہ سلیکٹڈ نمائندے اور سلیکٹڈ وزیراعلیٰ عوام پر بٹھاکر عوام کی روزانہ تذلیل کی جارہی ہے، ایف سی چیک پوسٹوں پر عوام کی عزت نفس محفوظ نہیں، انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم کے ایجنڈے میں انتخابی معاملات میں عدم مداخلت اور عوام کے ووٹ کی عزت کو سرفہرست رکھاگیاہے، پی ڈی ایم کو اس سلسلے میں خاطرخواہ کامیابی ہوئی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں 2018ء کی طرح ٹھپہ ماری نہیں ہوگی اگر ایساکیاگیا تویہ ملک کیلئے نیک شگون نہیں ہوگا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ جام جائے یا قدوس آئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہ بلوچستان کے مسئلہ کا حل نہیں ہے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو جام قدوس معاملہ میں نہیں پڑنا چاہیے تھا، پریس کانفرنس میں مرکزی جوائنٹ سیکرٹری اسلم بلوچ، مرکزی کمیٹی کے رکن واجہ ابوالحسن، مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹرکہورخان بلوچ، مرکزی کمیٹی کے رکن جسٹس (ر) شکیل احمدبلوچ، مرکزی سیکرٹری ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی پھلین بلوچ، مرکزی کمیٹی کے رکن عبدالحمید ایڈووکیٹ، مرکزی کمیٹی کے رکن نیازبلوچ، مرکزی کمیٹی کے رکن عبدالستارلانگو، ملابرکت بلوچ، نثار احمدبزنجو، خورشید رند، نظام رند، محمدجان دشتی، فیصل منشی محمد، ضلعی صدرمشکور انور،ضلعی جنرل سیکرٹری فضل کریم، طارق بابل، انور اسلم، حفیظ علی بخش، نثار آدم جوسکی، اعجازعلی محمدجوسکی،نعیم عادل ودیگر رہنماء بھی موجودتھے . .

.

متعلقہ خبریں