سیاسی بحران سنگین، 3 وزراء، 2 مشیر اور4 پارلیمانی سیکریٹریز مستعفی

کوئٹہ(قدرت روزنامہ) ناراض ارکان اسمبلی استعفے دینے کےلئے گورنر ہائوس پہنچ گئے . بلوچستان کابینہ کے ناراض 3وزراء ،4 مشیروں اور 2پارلیمانی سیکرٹریز نے استعفے دیدیئے .

رات گئے استعفیٰ دینےوالوں میں 3 وزراء عبدالرحمٰن کھیتران ، میر اسد بلوچ ،ظہور بلیدی ،2 مشیرحاجی ٘محمد خان لہڑی اور اکبر آسکانی جبکہ 4 پارلیمانی سیکرٹریز لیلیٰ ترین ، بشریٰ رند، ماہ جیں شیران اور لالہ رشید بلوچ بھی مستعفی ہونےوالوں میں شامل ہیں . قبل ازیں ناراض ارکان بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، مشیر اور پارلیمانی سیکریٹریز نے استعفے دستخط کے بعد گروپ کے اہم رکن کے پاس جمع کروادئیے تھے . بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اورپی ٹی آئی کے ناراض ارکان کا مشترکہ اجلاس گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں ہوا‘ جس میں صوبائی وزراء میر ظہور احمد بلیدی، میر اسد اللہ بلوچ، سردار عبدالرحمٰن کھیتران، وزیراعلیٰ کے مشیرمحمد خان لہڑی، میر اکبر آسکانی، پارلیمانی سیکرٹریز بشریٰ رند، عبدالرشید بلوچ، ماہ جبین شیران ، ارکان اسمبلی میر نصیب اللہ مری اور لیلیٰ ترین نے شرکت کی . اجلاس میں ناراض ارکان نے اپنے استعفے تحریر کئے اور گروپ کے اہم رکن کے پاس جمع کروادئیے تھے . درایں اثناء صوبائی وزیر میر اسد بلوچ نے کہا ہے کہ ہماری کسی سے کوئی ذاتی عداوت نہیں، چاہتے ہیں جام کمال خان وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیں ، ساتھ بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا . دو دن کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائیں گے ،یہ بات انہوں نے بدھ کی شب بلوچستان اسمبلی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی . وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ سیاست میں ڈر نہیں ہونا چاہیے میں استعفیٰ نہیں دے رہا ،اگر مخلوط حکومت میں شامل 40ارکان کی اکثریت میرے خلاف ہوگی تو از خود مستعفیٰ ہو جاؤنگا مگر یہ ممکن نہیں کہ 12ارکان پی ڈی ایم کے ساتھ ملکر حکومت گرائیں کل کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھی ناراض ارکان پی ڈی ایم کے ساتھ ملکر ایسا کریں گے . اگر ناراض ارکان تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو ہم بھی ڈٹ کر مقابلہ کریں گے میدان حاضر ہے، 7ارکان سے ملاقاتیں ہوئی ہیں انکا کہنا ہے کہ وہ وعدے وعید کرکے پھنس گئے ہیں وہ بھی مجھے ہٹانا نہیں چاہتے . صوبائی وزیر نے کہا کہ گزشتہ روز صوبائی وزراء کے ایک وفد نے ملاقات میں درخواست کی کہ جام کمال خان کو وقت دیں جبکہ ہم تو گزشتہ تین سال سے جام کمال خان کو وقت دے رہے ہیں ، اب ساتھ بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ہم نے ایک موقف رکھا ہے اس پر آگے بڑھیں گے . ہم سمجھتے ہیں کہ نمائندہ ایسا ہو جسے عوام سپورٹ کریں جبکہ وزیراعلیٰ پر عوام کا اعتماد ختم ہوگیا ،ہم اتحادی جماعتوں کے 40 ارکان اسمبلی سمندر میں ساحل کی جانب جارہے تھے . راستے میں جام کمال خان نے اس کشتی میں سوراخ کرنے کی کوشش کی، بہتر ہے جام کمال کشتی سے نکلیں، پوری کشتی کو کیوں ڈبورہے ہیں . مجھ سمیت ناراض وزراء نے استعفے لکھ دیئے ہیں ‘میرا استعفیٰ اس وقت بھی میری جیب میں ہے ، کسی وقت بھی دے سکتے ہیں تاہم مشترکہ فیصلہ ہوا ہے کہ ہم مزید 24 گھنٹے انتظار کریں تاکہ کوئٹہ سے باہر موجود ہمارے دیگر ساتھی بھی واپس آجائیں اور ہم مل بیٹھ کر فیصلہ کریں . انہوں نے کہا کہ صوبے میں پیدا ہونے والے احساس محرومی سے لوگ وفاق سے دور ہوئے ، جام کمال کی سربراہی میں جو جماعت بنی اس کی بنیادی وجہ صوبے کے احساس محرومی کا خاتمہ اور لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا تھا لیکن یہاں مزید خلیج پیدا ہوا اورحالات خراب ہوئے ، اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو فنڈز نہیں دیئے گئے جس پر وہ ناراض ہیں، ہم نے کابینہ کے اجلاس میں بھی کہا کہ یہ ایک فرد کی بات نہیں جمہوریت میں لوگوں کی رائے کا احترام کرنا چاہیے . تاہم جام کمال خان نے کوئی بات نہیں سنی ،بجٹ اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا اس سے بلوچستان سے متعلق غلط تاثر گیا ،ہم نہیں چاہتے اسمبلی ہر وقت مچھلی بازار بنا رہے، ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ دو سال ایک مثبت سیاسی ماحول میں گزریں اپوزیشن کو سیاسی طور پر ڈیل کریں . انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں ہم نے اپنا موقف میڈیا کے سامنے رکھا کہ جام کمال بدھ کی شام پانچ بجے تک وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیں اگر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تو ہم اپنے آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیں گے . وزیراعلیٰ نے میڈیا پر پیغام دیا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے . آج 14 ناراض ارکان کے اجلاس میں اتفاق ہوا کہ ہم وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائیں گے ، اس پر ناراض 14 حکومتی ارکان نے دستخط کئے ہیں ، ہم نے جام کمال خان کو موقع دیا کہ وہ عزت کیساتھ اپنے منصب سے الگ ہوجائیں . . .

متعلقہ خبریں