“وزیر اعظم اور آرمی چیف کو متحد ہونا ہوگا ورنہ ایک کی پسند کا ڈی جی آئی ایس آئی خطرے کی گھنٹی ہوگا ” کامران خان بھی بول پڑے
انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی سربراہ کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کا ہے مگر حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کا انتخاب آرمی چیف کے مشورے کے بغیر نہیں ہوسکتا، یقیناً ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم کو رپورٹ کرتا ہے اور ہدایت لیتا ہے مگر وہ آرمی چیف کا بھی تابع ہوتا ہے، آرمی ڈسپلن کاپابند ہے، یک شخصی پسند آئی ایس آئی سربراہ خطرے کی گھنٹی ہوگا . کامران خان کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر 1999 کے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کو مارشل لا کی کاری ضرب نے ایک اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا، 22 سال بعد آج پھر احساس ہورہا ہے کہ ہمارے پاکستان کی لیڈرشپ نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا، نہ جانے قصور سول سربراہ کا ہے یا فوجی سربراہ کا لیکن نقصان 22 کروڑ پاکستانیوں کا ہے . انہوں نے مزید کہا کہ سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہورہا ہے، پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے ، میرا وطن کن ناقابل برداشت قومی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے، ان حالات میں اس کیفیت میں آئی ایس پی آر کی جانب سے آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی کے اعلان کو پانچ دن گزر چکے ہیں مگر حکومت پاکستان ، وزیر اعظم ہاؤس سے آج تک اعلان کی توثیق نہ ہوئی . . .