میں صدر بن کر پوری دنیا گھومنا چاہتا تھا ،نواز شریف مجھے صدر بنانا چاہتے تھے لیکن وہ اپنے فیصلے سے پیچھے کیوں ہٹ گئے ، جاویدچودھری کے کالم میں تہلکہ خیز انکشافات
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’آپ دن بھر کیا کرتے ہیں‘‘ وہ بولے ’’اخبارات پڑھتا ہوں‘ نئی کتابیں پڑھتا ہوں‘ سعدی شیرازی اور مولانا رومؒ کی مثنوی دوبارہ پڑھ رہا ہوں‘ ٹیلی ویژن دیکھتا ہوں‘ کالم لکھتا ہوں اور عزیزوں ‘رشتے داروں اور دوستوں کے انتقال پر تعزیتی پیغامات تحریر کرتا ہوں اور بس‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے اپنا روپیہ پیسہ سنبھال کر رکھا یا ضائع کر دیا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میری تنخواہ تیس ہزار روپے تھی‘ گھر میں فرنیچر تک میری بیگم جہیز میں لائی تھی‘ حکومت سے ایک گز زمین نہیں لی‘ جیسے تیسے پوری زندگی کی کمائی سے ایک گھر بنایا‘ وہ بھی میاں نواز شریف کے دور میں سی ڈی اے گرانے کے لیے آ گیا تھا‘ میں نے چودھری شجاعت حسین کو فون کیا‘ ان کی مہربانی یہ وزیرداخلہ تھے‘ یہ ذاتی گاڑی میں بیٹھ کر میرے گھر آ گئے اور بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ یہ نہ آتے تو اس دن میرا واحد اثاثہ بھی گر چکا ہوتا‘‘ مجھے محسوس ہوا ڈاکٹر صاحب بہت دکھی ہیں‘ بہرحال ہم اسلام آباد میں لینڈ کر گئے اور وہ سیکورٹی کی گاڑیوں کے ساتھ روانہ ہو گئے . میری ڈاکٹر صاحب سے کبھی کبھی ٹیلی فون پر بات ہو جاتی تھی‘ وہ سادگی کا مرقع تھے‘ فون ہمیشہ خود اٹھاتے تھے اور دیر تک بات کرتے تھے‘ آواز میں ہمیشہ توانائی ہوتی تھی‘ خاندان بھوپال سے آیا تھا‘ زندگی کے آخری دنوں میں بھوپال کا ذکر کثرت سے کرتے تھے‘ بھوپالی شہزادیوں کاتذکرہ بھی کرتے تھے اور تعلیمی اداروں کا بھی‘ 1952ء میں کھوکھرا پار کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے ‘ جیب میں ایک پین اور سر پر ٹین کا بکسا تھا‘ یہ کل اثاثہ تھا‘ تعلیم بڑی مشکل سے پائی‘ 1967ء میں ہالینڈ سے میٹالرجی میں ماسٹرز کیااور1972 ء میں بیلجیئم سے میٹالرجیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی‘ زبانیں سیکھنے کا شوق تھا‘ اردو‘ فارسی کے ساتھ ساتھ جرمن‘ ولندیزی‘ فرنچ اور انگریزی بھی جانتے تھے‘ ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائینامکس ریسرچ لیبارٹری میں کام شروع کر دیا‘ یادداشت فوٹو گرافک تھی لہٰذا تمام جوہری راز ازبر کر لیے‘ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملے اور پاکستان میں جوہری پلانٹ پر کام شروع کر دیا‘ سیٹھ عابد کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے‘ یہ انہیں پرزے اور مٹیریل بتاتے تھے اور سیٹھ عابد جیسے تیسے منگوا کر ان کے حوالے کر دیتے تھے‘ جنرل اسلم بیگ نے اپنے دور میں پاکستان کے جوہری پروگرام کا آڈٹ کرایا‘ پتا چلا دس برسوں میں صرف 300 ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور اتنی رقم میں سو میگا واٹ کا پاور پلانٹ نہیں آتا‘ یہ اس لحاظ سے دنیا کا سستا ترین ایٹمی پلانٹ تھا‘ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی ڈاکٹر عبدالقدیر نہ ہوتے تو پاکستان دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور نہ ہوتا لیکن 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے وقت انہیں جان بوجھ کر اگنور کیا گیا‘یہ اس پراجیکٹ کے بانی تھے‘ یہ نہ ہوتے تو پاکستان کبھی جوہری منزل نہ پا سکتا لہٰذا یہ زیادہ عزت کے حق دار تھے‘ ہمیں ان پر جوہری راز بیچنے کا الزام نہیں لگانا چاہیے تھا اور یہ اگر مجبوری تھی تو پھر مجبوری ختم ہونے کے بعد ہمیں یہ داغ دھو دینا چاہیے تھا‘ ہمیں انہیں اس دھبے کے ساتھ دنیا سے رخصت نہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ ہمارے محسن تھے‘ قائداعظم کی طرح محسن‘ قائداعظم نے ملک بنایا تھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے ملک بچایا تھا لیکن ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ہم نے انہیں چور بنا کر دنیا سے رخصت کر دیا‘ دنیا میں آج تک جو آیا اس نے چلے جانا ہے‘ ڈاکٹر عبدالقدیر بھی 10 اکتوبر 2021ء کو چلے گئے لیکن آپ بے حسی دیکھیے‘ محسن پاکستان کے جنازے میں صدر تھے‘ وزیراعظم تھے‘ اپوزیشن لیڈر تھے اور نہ ہی سروسز چیفس تھے‘ کیا قومیں اپنے ہیروز کو اس طرح رخصت کیا کرتی ہیں؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کی گیلی قبر پورے ملک سے یہ سوال کر رہی ہے ‘شاید اس اجتماعی بے حسی پر کوئی بول پڑے‘ کوئی ایک! . . .