اسلام آباد(قدرت روزنامہ)حکومت نے صرف یہ جاننے کیلئے کہ کسی ادارے کی نجکاری ہوسکتی ہے یا نہیں، 1 ارب 99 کروڑ روپے خرچ کردیے اور پھر نجکاری کا مشورہ ملنے کے بعد اس پر عمل بھی نہیں کیا .
سینیٹر محمد طلال چوہدری کی زیر صدارت سینیٹ کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں گزشتہ 5 سالوں میں نجکاری کے عمل پر آنے والے اخراجات اور آمدن پر بریفنگ دی گئی .
سیکرٹری نجکاری نے بریفنگ میں بتایا کہ گزشتہ پانچ سال میں نجکاری ٹرانزیکشنز سے 4 ارب 38 کروڑ روپے آمدن حاصل ہوئی، جبکہ نجکاری پر اس دوران 1 ارب 40 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، آپریشنل اخراجات ملا کر مجموعی رقم 1 ارب 99 کروڑ روپے خرچ ہوئی .
سیکریٹری نجکاری نے بتایا کہ نیشنل پاور پارک کمپنی کو نجکاری لسٹ سے نکال دیا گیا، نیشنل پاور پارک کمپنی کی نجکاری کیلئے 33 کروڑ روپے فنانشل ایڈوائزر کو دیے گئے، پاکستان اسٹیل ملز کو بھی نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا، اسٹیلز ملز کیلئے تین سالوں میں فنانشل ایڈوائزر کو 12 کروڑ 70 لاکھ روپے ادائیگی ہوئی، جناح کنونشن سینٹر کو بھی نجکاری کی لسٹ سے نکال دیا گیا، جناح کنونشن سینٹر پر فنانشل ایڈوائزر کو 70 لاکھ روپے پیمنٹ ہوئی .
رکن کمیٹی سینیٹر بلال احمد نے پوچھا کہ نجکاری کیلئے فنانشنل ایڈوائزر ہائر کیوں کیا جاتا ہے؟
سیکریٹری نجکاری ڈویژن نے جواب دیا کہ فنانشل ایڈوائزر بتاتا ہے کہ ادارے کی نجکاری ہو سکتی یا نہیں .
چیئرمین کمیٹی طلال چوہدری نے پوچھا کہ اتنا خرچہ کرکے پھر نجکاری کیوں روک دی گئی؟
سیکریٹری نجکاری نے جواب دیا کہ حکومت نے ہی بعد میں اس کمپنی کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا، گزشتہ سال کابینہ نے اسٹیل ملز کو ڈی لسٹ کر دیا تھا، سٹیل ملز کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک بڈر رہ گیا تھا، حکومت کا خیال تھا کہ ایک بڈر کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں رہے گا، جناح کنونشن سینٹر کی نجکاری پر سی ڈی اے کے کچھ اعتراضات تھے .
. .