کوئٹہ، میں سرد لہر کی آمد، فضا میں خنکی کیساتھ سرد ہوائیں چل رہی ہیں

کوئٹہ(قدرت روزنامہ)کوئٹہ کا موسم بدلنا شروع ہوگیا ہے، فضا میں خنکی کے ساتھ سرد ہوائیں چل رہی ہیں لیکن بلوچستان کے سیاسی میدان میں خاصی گرما گرمی ہے . گذشتہ ماہ کے وسط میں جب سے متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی پہلی مگر ناکام کوشش ہوئی تب سے صوبے کی سیاست میں ہلچل ہے .

روز کچھ نہ کچھ نیا ہوتا ہے . منگل کو صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی رہی جس پر پارٹی کے دونوں دھڑوں کی جنگ شروع ہوگئی ہے . سپیکر عبدالقدوس بزنجو، سردار صالح محمد بھوتانی، عبدالرحمان کھیتران اور ظہور احمد بلیدی کی قیادت میں جام کمال سے ناراض دھڑے نے رکن صوبائی اسمبلی اور چند روز قبل وزارت خزانہ سے احتجاجا استعفی دینے والے ظہور احمد بلیدی کو قائم مقام صدر بنا دیا ہے . اس سلسلے میں نوٹیفکیشن پارٹی کے جنرل سیکرٹری سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے جاری کیا ہے جو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں . نوٹیفکیشن جاری ہونے کے کچھ گھنٹے بعد وزیراعلی جام کمال خان نے وزیراعلی ہاس میں پارٹی کے چند رہنماں کے ہمراہ ہنگامی پریس کانفرنس بلائی اور پارٹی صدارت چھوڑنے سے متعلق اپنے فیصلے پر یو ٹرن لیا . جام کمال کا کہنا تھا کہ انہوں نے پارٹی صدارت سے کوئی تحریری استعفی نہیں دیا صرف چند ہفتے قبل ایک ٹویٹ کی تھی لیکن اب پارٹی کے دوستوں کے مشورے سے یہ فیصلہ واپس لے لیا . ان کا کہنا تھا کہ ظہور بلیدی کو قائم مقام صدر بنانے سے متعلق نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ اس کا فیصلہ پارٹی کی ایگزیکٹیو کونسل میں نہیں ہوا . انفرادی طور پر کوئی کسی کو پارٹی صدر نہیں بنا سکتا . جام کمال مئی 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے . مئی 2021 میں ان کی معیاد صدارت ختم ہوئی تو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا کہا . جام کمال نے کورونا کو وجہ بتا کر الیکشن کمیشن سے چھ ماہ یعنی نومبر تک مہلت لے رکھی ہے . 2018 کے انتخابات سے چند ماہ قبل وجود میں آنے والی پارٹی کی صدارت ان دنوں اس لیے بھی زیادہ اہم ہوگئی ہے کہ باپ پارٹی کے ناراض دھڑے نے بی این پی عوامی کے دو اور تحریک انصاف کے ایک رکن کے ساتھ مل کر وزیراعلی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی ہے . 18 ویں ترمیم میں فلور کراسنگ روکنے کے لیے پارٹی صدر کے کردار کو بڑھایا گیا ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے . آئین کی شق 63 اے کے تحت وزیراعلی کے انتخاب، اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ میں کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی قیادت کی ہدایات کی خلاف ورزی کی صورت میں نااہل بھی ہو سکتا ہے . جام کمال شاید اسی لیے پارٹی صدارت اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور وہ اس آئینی شق کا بطور ہتھیار استعمال کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں . بلوچستان میں اس آئینی شق پر کارروائی کا عملی مظاہرہ 2018 میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اس وقت کیا جب ثنا اللہ زہری کے استعفے کے بعد قائد ایوان کے لیے پارٹی کے امیدوار کی بجائے منظور کاکڑ نے عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا . پشتونخوا میپ نے الیکشن کمیشن سے رجوع کر کے منظور کاکڑ کی اسمبلی رکنیت ختم کرا دی . منظور کاکڑ بعد میں باپ پارٹی میں شامل ہوکر پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور پھر سینیٹر منتخب ہوئے . بلوچستان عوامی پارٹی اپنے قیام کے ساتھ سے ہی تنازعات کا شکار رہی ہے . طاقتور حلقوں کی حمایت اور الیکٹ ایبلز کی شمولیت کے نتیجے میں عام انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی، سینیٹ اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب جیسے امتحانات میں بھی کامیاب رہی مگر ان دنوں پارٹی اپنے قیام سے لے کر اب تک کے سب سے زیادہ نازک مرحلے میں ہے . اسی خدشے کا اظہار منگل کو پارٹی کے چیف آرگنائزر سابق وزیر اعلی جان محمد جمالی نے بھی کیا . ان کا کہنا تھا کہ پارٹی بچانے کے لیے وزیراعلی پارلیمانی ارکان کا اجلاس بلائیں جس میں تمام 24 ارکان صوبائی اسمبلی شریک ہو کر اندرون خانہ فیصلہ کریں اور جسے بھی قربانی دینی ہے وہ دیں . بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی کے 24 ارکان ہیں جن میں سے 12سے 13 ارکان وزیراعلی کے مخالف کیمپ میں ہیں . خبر ہے کہ ناراض ارکان پارٹی صدر کے بعد پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی پر بھی مشاورت کر رہے ہیں . بلوچستان حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی نے تحریک عدم اعتماد میں وزیراعلی جام کمال کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے . تینوں جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر نے منگل کی شام کو وزیراعلی سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا . ان تینوں جماعتوں کے بلوچستان اسمبلی میں سات ارکان ہیں . صوبے میں باپ پارٹی کی سب سے بڑی اتحادی جماعت تحریک انصاف ہے جس کے سات ارکان اسمبلی ہیں . جام کمال کا دعوی ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی کے سوا پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند سمیت تمام چھ ارکان ان کے ساتھ ہیں . تاہم پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت باپ پارٹی کے اکثریت کا ساتھ دے گی . یار محمد رند بھی چند ماہ پہلے تک ناراض تھے اور وزارت تعلیم سے استعفی دے کر گھر بیٹھ گئے تھے . انہیں حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد آنے سے کچھ دنوں پہلے ہی جام کمال مسلسل کوششوں کے بعد منانے میں کامیاب ہوئے . اتحادی جماعتوں میں صرف بی این پی عوامی اب تک واضح انداز میں جام کی مخالفت کر چکی ہے . اس جماعت کے اسد بلوچ نے باپ پارٹی کے ناراض وزرا کے ہمراہ سماجی بہبود کی وزارت سے استعفی دیا . ان کی اہلیہ مستورہ بی بی بھی اسمبلی کی رکنیت رکھتی ہیں . 65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سادہ اکثریت یعنی 33 ارکان کی ضرورت ہے . جمعیت علما اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی پارٹی اور آزاد رکن اسمبلی نواب اسلم رئیسانی کو ملا کر حزب اختلاف کے ارکان کی مجموعی تعداد 23 ہے . حکومتی اتحاد کے 14 سے 15 ارکان ناراض دھڑے کا حصہ ہیں . اس طرح نمبر گیم میں جام کمال پیچھے اور ناراض دھڑا بظاہر حزب اختلاف کو ساتھ ملا کر آگے ہے مگر جام کمال خان ڈٹے ہوئے ہیں اور مستعفی ہونے کو تیار نہیں . وہ پر امید ہیں کہ ناراض دھڑے میں سے کئی ارکان دوبارہ ان کی حمایت کر سکتے ہیں . سینیٹ انتخابات کی طرح ایک بار پھر ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے بدلے خرید و فروخت کی افواہیں بھی سیاسی حلقوں میں گرد ش کر رہی ہیں . ناراض دھڑے کے اسد بلوچ نے جام کمال پر ناراض ارکان کو لالچ اور پیسہ دینے کا الزام بھی لگایا ہے تاہم وزیراعلی نے ان افواہوں اور الزامات کو رد کیا ہے . ناراض دھڑے کے 14 ارکان نے پیر کو عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی . بلوچستان اسمبلی کے رولز آف پروسیجر کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر سات دنوں کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا ہے . اسمبلی میں تحریک پیش ہونے کے تین دن بعد اور سات دن سے پہلے رائے شماری کرانا ضروری ہوتا ہے . سیکریٹری بلوچستان اسمبلی کی جانب سے اسمبلی اجلاس بلانے سے متعلق سمری گورنر ہاس بھیجی جا چکی ہے مگر گورنر ظہور احمد آغا نے اب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں لیا . پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ظہور آغا تین ماہ قبل ہی اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں . اس سے پہلے وہ 14 ستمبر کو حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے اسمبلی اجلاس بلانے کی سمری تکنیکی بنیادوں پر مسترد کر چکے ہیں مگر حکومتی ارکان کی تحریک عدم اعتماد کے لیے اسمبلی اجلاس بلانے پر کوئی فیصلہ لینے کے لیے گورنر پیر کی رات کو خصوصی طیارے سے اسلام آباد گئے جہاں وہ صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے مشاورت کریں گے . عبدالقدوس بزنجو، ظہور احمد بلیدی اور عبدالرحمان کھیتران سمیت ناراض دھڑے کے کئی ارکان بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں تاکہ وزیراعظم اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو تحریک عدم اعتماد میں رکاوٹیں نہ ڈالنے اور بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی پر قائل کر سکیں . بلوچستان میں حکومتوں کے چلنے کا انحصار مرکز کی خوشنودی پر منحصر ہوتا ہے اس لیے بھی ساری نگاہیں اب مرکز کی جانب ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری سیاسی ہلچل میں اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالتا ہے؟ . . .

متعلقہ خبریں