وزیراعلیٰ جام کمال نے پارلیمانی لیڈری تبدیلی کی درخواست کو جعلی قرار دیدیا، اور دستخطوں کو تصدیق کرنے کی درخواست اسپیکر کو دیدی

کوئٹہ(قدرت روزنامہ) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان کی جانب سے پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی کی درخواست پردستخطوں کو جعلی قرار دیتے ہوئے اسپیکر کو دستخطوں کی صدیق کروانے کی درخواست دے دی، جمعرات کو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بطور بی اے پی صدر اور پارلیمانی لیڈر اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے نام درخواست سیکرٹری اسمبلی کے پاس جمع کروائی ہے جس میں انہوں نے گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان کی جانب سے پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی کی درخواست پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر،پارلیمانی لیڈر اور وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں تاہم چند ارکان کی جانب سے پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی کی درخواست دی گئی ہے جو آئین کے مطابق پارٹی صدر کا فیصلہ ہوتا ہے درخواست میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی کے دستخط جعلی معلوم ہوتے ہیں اور انکی تصدیق کی ضرورت ہے جبکہ درخواست پارٹی صدر جام کمال خان کی منظوری کے بغیر جمع کروائی گئی ہے لہذا اسکے خلاف درخواست جمع کروا جارہی ہے وزیراعلیٰ کی جانب سے درخواست صوبائی وزراء میر سلیم کھوسہ، میر ضیاء اللہ لانگو، سینیٹر آغا عمر احمدزئی، سینیٹر دنیش، امیر محمد ترین کی جانب سے جمع کروائی گئی ہے . درخواست جمع کروانے کے بعد صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خطہ اور صوبہ دہشتگردی کی وجہ سے بدنام ہے معزز ارکان کے لئے لاپتہ کا لفظ استعمال نہ کریں انہوں نے کہا کہ سرکار ہر اس چیز کو سنجیدہ لیتی ہے جس میں حقیقت ہو اگر ہر شخص اسمبلی میں بیٹھ کر وزیراعلیٰ کے خلاف درخواست دینی شروع کردے تو وزیراعلیٰ کے خلاف ہزاروں پرچے کٹیں گے انہوں نے کہا کہ ناراض ارکان کی وزیراعلیٰ کے خلاف درخواست کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اگر ہر معاملے میں صوبے کے چیف ایگز یکٹو کو شامل کیا جائیگا تو صوبے کے معاملات کیسے چلیں گے انہوں نے کہا کہ ناراض ارکان کو کسی سے خوف ہے تو وہ حکومت کو لکھیں اگر کسی کے دل میں خوف ہے تو وہ صرف اللہ نکال سکتا ہے انہوں نے کہا کہ رکن اسمبلی عبدالرشید بلوچ نے ایوان میں بیان دیا کہ وہ کسی کام سے گئے جس کے بعد ان کا بیان لینے کی ضرورت نہیں ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹوئٹر پر فیک اکاؤنٹ بھی ہوتے ہیں کسی بھی شہری کے لاپتہ ہونے پر حکومت ایکشن لیتی ہے رکن اسمبلی کے لاپتہ ہونے پر حکومت ایکشن کیسے نہیں لیگی باقاعدہ انکے خاندان کی طرف کی طرف سے اگر کوئی درخواست آئیگی تو ہم کاروائی کریں گے انہوں نے کہا کہ بہت سے علاقوں میں نیٹ ورک نہیں ہوتا جب میں بھی اپنے گاؤں جاتا ہوں تو وہاں بھی موبائل کام نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت پہلے دن سے ناراض ارکان کے ساتھ رابطے میں ہیں انکے ایسے گلے شکوے نہیں جو ہم پورے نہیں کر سکیں امید ہے دوست ہماری اور ہم انکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے انہوں نے کہا کہ بشریٰ رند نے خود ٹوئٹ کیا ہے کہ وہ علاج کے سلسلے میں گئی ہیں ہر ایک کی نجی زندگی ہے کوئی اجلاس میں آتا ہے کوئی نہیں آتا ہر ایک کی اپنی مرضی ہے اور کام ہوسکتے ہیں ہمیں کسی بھی اینگل سے لاپتہ ہونے اطلاعات نہیں ہیں کسی معزز رکن پر اگر تشدد کیا گیا ہے تو ثبوت پیش کئے جائیں ہم کاروائی کریں گے ارکان کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جرم ہے .

.

متعلقہ خبریں