افغانستان کے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی ایسی شخصیت ہیں جن کی تلاش میں مدد دینے والے فرد کے لیے انعام کی رقم کا جو پوسٹر امریکی حکام کی جانب سے شائع کیا گیا اس پر ان کے دو خاکے اور ایک ایسی تصویر موجود ہے جس میں ان کا چہرہ واضح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا . اس تصویر کو سراج الدین حقانی کی وہ واحد تصویر قرار دیا جاتا ہے جو عام ریکارڈ میں موجود ہے اور یہ تصویر بنانے اور اس کی اشاعت کی کہانی انتہائی دلچسپ و عجیب ہے . یہ جنوری 2010 کی بات ہے، جب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ منسلک ایک افغان صحافی نے اپنے ذرائع سے درخواست کی کہ سراج الدین حقانی کے ساتھ انٹرویو کروایا جائے . دن اور وقت مقرر ہوا، افغان صحافی نے کئی دن سفر کرنے کے بعد سراج الدین حقانی سے ملاقات کی، انٹرویو کیا اور اُن کی تصویر بھی بنا لی . واپسی پر اس ڈر سے کہ یہ انٹرویو افغان فورسز یا امریکی فوج کے ہاتھ نہ لگ جائے، افغان صحافی نے پشتو زبان کی پاکستانی گلوکار نازیہ اقبال کے نغموں کے کیسٹ کے کور میں وہ کیمرہ چپ ڈال کر کابل پہنچائی جس میں وہ انٹرویو اور تصویر موجود تھے . یہ افغان صحافی سید عبداللہ نظامی ہیں جو کئی سال پہلے ہی اپنا ملک چھوڑ کر لندن منتقل ہو گئے ہیں . عبداللہ نظامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس سفر کی روداد سنائی . وہ بتاتے ہیں کہ کابل سے نکلنے کے بعد انھوں نے کئی دن سفر کیا اور پھر آخرکارایک دور دراز گاؤں میں ان کی ایک آدمی سے ملاقات ہوئی . انھیں خلیفہ صاحب کے نام سے پکارا جاتا تھا اور دنیا انھیں سراج الدین حقانی کے نام سے جانتی تھی . وہ کہتے ہیں کہ ‘وہ گاؤں کا ایک عام سے آدمی تھا، جو عام کپڑوں میں ملبوس تھے . بہت کم بولتے تھے اور وہ بھی انتہائی دھیمی آواز میں . ’ان کے مطابق سراج الدین حقانی نے ایک سفید ٹوپی پہن رکھی تھی اور ان کے سر پر تالبان یا مولویوں کی طرح کوئی پگڑئی نہیں تھی . ’میں نے اُس سے کہا کہ کوئی پگڑی تو پہن لیں کیونکہ تالبان کے سروں پر پگڑیاں ہوتی ہیں، وہ مان گئے، پگڑی پہنی اور پگڑی کے اوپر چادر بھی اوڑھ لی . ’اس دوران انٹرویو بھی ہوا اور تصویر بھی کھینچ لی گئی . سید عبداللہ نظامی کے مطابق سراج الدین حقانی کا انٹرویو کرنے کے بعد جب وہ دوبارہ کابل کی طرف روانہ ہوئے تو ڈر یہ تھا کہ یہ انٹرویو راستے میں افغان فورسز یا نیٹو فورسز کے ہاتھ نہ لگ جائے . وہ کہتے ہیں کہ ‘میں نے سوچا کہ اگر ایسا ہوا تو نہ صرف یہ خصوصی انٹرویو ہاتھ سے نکل جائے گا بلکہ سراج الدین حقانی کے ٹھکانے کے حوالے سے بھی پوچھ گچھ ہو گی . ’سوچ بچار کے بعد خوست شہر میں ایک موسیقی کی کیسٹ کی دکان سے پشتو کی مشہور گلوکارہ نازیہ اقبال کا کیسٹ خریدی اور یہ طے کیا کہ انٹرویو والی کیمرہ چپ نازیہ اقبال کے اسی کیسٹ کور میں ڈال کر منزل مقصود تک پہنچاؤں . ’ عبید اللہ نظامی کہتے ہیں کہ ‘پشتو گلوکارہ نازیہ اقبال کے جس کیسٹ کور میں سراج الدین حقانی کا انٹرویو پہنچایا گیا اُس پر ان کی جو تصویر تھی اُس میں وہ ہلکی سی مسکرا رہی تھیں’لیکن کیمرے کی چپ میں قید سراج الدین کی تصویر نازیہ اقبال کی تصویر سے بالکل مختلف تھی اور وہ انتہائی سنجیدہ نظر آرہے تھے . ’خیال رہے کہ آج کے زمانے کی ایم پی تھری پلئیرز سے پہلے دیگر زبانوں کے گلوکاروں کی طرح پشتو گلوکار بھی کئی عرصے بعد ایک کیسٹ ریکارڈ کرتے تھے اور اُسے البم کا نام دیا جاتا تھا . اکثر گلوکار اس البم پر اپنے خوبصورت ترین تصاویر لگاتے تھے، اور ان کے پرستار البم پر موجود گانوں کی فہرست دیکھ کر کیسٹ خریدتے تھے . شاید یہ افغان صحافی سید عبداللہ نظامی اس کیسٹ کے واحد خریدار ہوئے ہوں گے جنھوں نے نازیہ اقبال کی کیسٹ خریدتے وقت گانوں کی فہرست نہیں دیکھی ہو گی . سراج الدین حقانی اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ شرپسندوں کی بلیک لسٹ میں موجود ہیں اور امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ان کے بارے میں معلومات دینے پر پہلے پچاس لاکھ ڈالر جبکہ بعد میں ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا گیا تھا . اقوامِ متحدہ اور امریکی محمکہ خارجہ کی جانب سے اس انعام کی رقم کے ساتھ سراج الدین حقانی کی یہی واحد تصویر بھی لگی ہوئی ہے . افغان صحافی سید عبداللہ نظامی بتاتے ہیں کہ ‘سراج الدین حقانی کا انٹرویو کرنے کے بعد جب وہ واپس کابل پہنچے اور کیمرے کی میموری چپ ساتھی صحافی کے حوالے کی تو اس خوف کی وجہ سے کہ فورسز نے اُن کا پیچھا نہ کیا ہو، اُنھیں جلال آباد بھیج دیا گیا . ’ان کے مطابق دوسرے دن سراج الدین حقانی کے ساتھ واحد انٹرویو اور تصویر دنیا کے بیشتر بڑے چینلوں کی زینت بنی . سید عبداللہ نظامی کے مطابق ‘اب کچھ دن کے بعد سراج الدین حقانی منظر عام پر آ جائیں گے اور اب تک چھپ کے زندگی گزارنے والے یہ ‘خلیفہ’ شاید کسی دن افغان دکانداروں کے سامنے بھی آ جائیں لیکن اُس کے بعد اُن کی تصویر کی اہمیت پہلی اور واحد تصویر کی طرح نہیں ہو گی . . .
کابل(قدرت روزنامہ) تالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے تقریباً تین ہفتے بعد عبوری کابینہ کا اعلان دنیا بھر کے اخبارات اور نشریاتی اداروں کے لیے بڑی خبر تھی وہیں ایک مسئلہ یہ بھی درپیش رہا کہ کابینہ کے کئی ارکان کی بھی مصدقہ تصویر موجود نہیں ہے . چاہے وہ وزیرِ دفاع ملا محمد یعقوب
ہوں یا پھر وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی میڈیا اور عام لوگ ان کی شکل سے واقف نہیں .
متعلقہ خبریں