یورپ کی طرف پاکستانی پروازوں پرپابندی عمران خان دورحکومت میں کیوں عائد ہوئی؟
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)پاکستان قومی ایئرلائن سمیت دیگر نجی ایئرلائنز کے یورپ کے لیے فلائٹ آپریشن پر پابندی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے دورحکومت میں عائد ہوئی تھی جس سے 4 سالوں میں قومی خزانے اور ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور ملک کے 262 پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا گیا۔
یورپین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی(ای اے ایس اے) نے جون 2020 کوپاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کا یورپ کے لیے فلائٹ آپریشن کا اجازت نامہ پی ٹی آئی کے وزیر ہوا بازی غلام سرور کے ایک متنازع بیان کے بعد ابتدائی طور پر 6 ماہ کے لیے معطل کردیا تھا، جسے ایجنسی نے بعد ازاں 2021 میں غیرمعینہ مدت تک بڑھا دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں سابق وزیرہوابازی غلام سرور خان نے 262 پائلٹس کے لائسنس کو ‘مشکوک’ قراردے دیا تھا، جن میں پی آئی اے کے 141، ایئر بلیو کے 9، سیرین ایئر کے 10 اور شاہین ایئر لائن کے 17 پائلٹس شامل تھے۔
سابق وزیر ہوا بازی غلام سرورخان کے اس اعلان نے عالمی سطح پرپاکستان ایئرلائنز کے پائلٹس اور فلائٹ آپریشن پرشدید تشویش پیدا کردی تھی۔ پائلٹس کے مشکوک لائسنسوں پریہ کارروائی مئی 2020 میں کراچی میں پی آئی اے کے ایک طیارے کے حادثے کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کی گئی۔
اس رپورٹ میں یہ الزام سامنے آیا تھا کہ طیارے کے پائلٹس معیاری طریقہ کارپرعمل کرنے میں ناکام رہے اورالارم کو نظرانداز کیا گیا، جس کے بعد غلام سرور نےایک بار پھر پائلٹس کی ڈگریاں اور لائسنسز کو جعلی قرار دیا تھا۔
ای اے ایس اے (ایسا) نے اپریل 2021 میں پی آئی اے پرعائد سفری پابندیوں میں مزید غیرمعینہ مدت کے لیے توسیع کرتے ہوئے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (پی سی اے اے) کو ہدایت کی تھی کہ وہ ’آئی سی اے او‘ سے اپنا سیفٹی آڈٹ کروائے۔
پی ٹی آئی کے دور میں عائد پابندی کو ہٹانے کے لیے متعدد بارکوششیں کی گئیں لیکن اس وقت کی حکومت کے ناکافی اقدامات کےباعث پاکستان کی ایئرلائنزکا یورپ کے لیے فلائٹ آپریشن بحال نہ ہو سکا۔
سیفٹی پروٹوکول میں عدم تعمیل کی بنیاد پریورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کویورپی ممالک کے لیے پروازوں کا دوبارہ اجازت نامہ جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
دوسری جانب سیفٹی ایجنسی کا کہنا تھا کہ اس نے یہ اقدام پاکستان کی جانب سے ہروقت بین الاقوامی ایوی ایشن معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانے کی صلاحیت کے بارے میں جنم لینے والے خدشات کی وجہ سے اٹھایا ہے۔
اس قضیے کے بعد پاکستان کی جانب سے ملک کے 860 میں سے 262 پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا گیا جس سے پی آئی اے سمیت دیگرایئرلائنز کوناقابل تلافی معاشی نقصان پہنچا، گراؤنڈ ہونے والے ان طیاروں میں پی آئی اے کے 434 میں سے 141 پائلٹس بھی شامل تھے، ان پائلٹسں کے لائسنس اس وقت کے وزیرہوابازی غلام سرورنے ہی اپنے ایک بیان میں ’مشکوک‘ قرار دیے تھے۔
اُس وقت پی آئی اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ’ایسا‘ نے’پی آئی اے‘ کا یورپی یونین کے رکن ممالک کے لیے پروازیں چلانے کا اجازت نامہ غیرمعینہ مدت کے لیے توسیع کردی ہے۔
اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ جون 2020 کو کراچی میں پی آئی اے کی پرواز کے حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے بعد کیا تھا جس میں 97 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
’ای اے ایس اے‘ کے فیصلے کے بعد برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا تھا کہ وہ بھی قانون کے مطابق اپنے 3 ہوائی اڈوں سے ’پی آئی اے‘ کی پروازوں کو دیا گیا اجازت نامہ واپس لے رہی ہے۔
برطانوی حکام کے ترجمان کا کہنا تھا کہ برمنگھم، لندن ہیتھرو اورمانچسٹرایئرپورٹس سے پی آئی اے کی پروازیں فوری طورپرمعطل کردی گئی ہیں۔ یہ تینوں ایئرلائن کے لیے اہم پروازکے مقامات تھے۔
ادھرپاکستانی پائلٹس اوران کی یونین پاکستان ایئرلائنزپائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مشکوک لائسنس رکھنے والے پائلٹس کی فہرست میں تضادات ہیں اس پرانہوں نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
پی آئی اے اور نجی ایئرلائن ایئر بلیو نے بھی اس فہرست پرسوالات اٹھائے تھے، پی آئی اے کا کہنا تھا کہ اس کے 36 پائلٹس یا توریٹائرہوچکےہیں یا ایئرلائن چھوڑچکے ہیں جبکہ ایئربلیوکا کہنا تھا کہ اس نے فہرست میں شامل 9 میں سے 7 پائلٹوں کو ملازمت ہی نہیں دی ہے۔ ’اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل پائلٹوں کے نام شامل ہیں جنہوں نے تمام ٹیسٹ پاس کیے ہیں۔
پاکستان کی وزارت ہوا بازی کے اُس وقت کےعہدیدارعبدالستار کھوکھر نے بھی کہا تھا کہ ان کے پاس پائلٹس کی خامیوں کی مکمل تفصیلات نہیں ہیں اور’اس معاملے کو ایئرلائنزاورسول ایوی ایشن حکام کی مشاورت سے حل کیا جا ئےگا‘۔
اس طرح پاکستان تحریک انصاف کے دورِحکومت میں پاکستان کی قومی اوردیگرنجی ایئرلائنز پریورپی ممالک کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے باعث 4 سال کے عرصے میں نا قابل تلافی نقصان پہنچا، جس کا تخمینہ اربوں ڈالرلگایا ہے۔