حکومت چل نہیں رہی چلائی جارہی ہے،مولانافضل الرحمن

کوئٹہ(قدرت روزنامہ)پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی صدر مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ حکومت چل نہیں رہی حکومت چلائی جارہی ہے اپاہج وسہارے سے چلنے والی حکومت نہیں کہلاتی بلکہ عوام کے ذریعے چلنے والی حکومتیں ہوتی ہیں جعلی اکثریت کی بنیاد پر حکومت کرنا 22 کروڑ عوام کو غلام بنانے کے مترادف ہے ناجائزو دھاندلی کی پیداوار حکومت آئندہ اقتدارمیں آنے کیلئے جعلی قانون سازی کررہی ہے لیکن متحدہ اپوزیشن نے پارلیمان میں حکومت کو ایسی قانونی سازی کرنے میں شکست دیدی جس پر حکومت کو پارلیمان کامشترکہ اجلاس بھی ملتوی کرناپڑا حکومت کے اتحادی جماعتوں کہ گردنیں مروڑ کر مشترکہ اجلاس میں جانے پر مجبور کیا جارہا ہے اداروں کا احترام کرتے ہیں مگر آج پھر ان کی غیر جانبداری مجروح ہورہی ہے سیاست میں ناجائز مداخلت ہوگی تو گلہ کرنا ہمارا حق ہے عوام پر مہنگائی اور ٹیکسز کے پہاڑ گرائے جارہے ہیںپارلیمنٹ ہاوس اور اس کے لاجز کے سامنے ماں باپ اپنے بچوں کو فروخت کرنے لارہے ہیںسندھ میں پولیس والا اپنا بیٹا بیچنے کیلئے سڑک پر نکلا ہے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے بیان کا عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے ہر چیز پر مٹھی پاو کا فارمولا نہیں چل سکتا یہ معاملات عدالتوں کے ماضی میں فیصلوں کومشکوک بنا رہی ہے . ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا .

اس موقع پر پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین محمود خان اچکزئی ،ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، مولاناحافظ حمد اللہ ،ملک عبدالولی کاکڑ،ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی ،بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندرایڈووکیٹ، سرداریعقوب خان ناصر،پی ڈی ایم بلوچستان کے صدر ملک نصیراحمدشاہوانی ،مولوی محمدسرور موسیٰ خیل ،عبدالرحیم زیارتوال ، رحمت صالح بلوچ ،مولاناخورشید احمد،عصمت اللہ سالم،نصراللہ زیرے ،موسیٰ بلوچ، ودیگر بھی موجود تھے . مولانافضل الرحمن نے کہاکہ پی ڈی ایم اس وقت پاکستان کے عام آدمی کی آواز ہے جس طرح غربت اور مہنگائی کی چکی میں پوری قوم پس رہی ہے اور جس طرح آئے روز لوگوں پر مہنگائی اور ٹیکسز کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں یہاں تک کہ پارلیمنٹ ہائوس اور اس کے لاجز کے سامنے ماں باپ اپنے بچوں کو فروخت کرنے کیلئے لائے ہیں سندھ میں ایک پولیس سپاہی کھلے سڑک پر اپنے بچے کو فروخت کرنے کیلئے چیخ رہاہے لوگ خودکشیاں کررہے ہیں اپنے بچوں کی بھوک لوگوں سے دیکھی نہیں جارہی اور نااہل حکمران اقتدار کو طول دینے کیلئے ہر ناجائز حربے کو استعمال کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں جعلی اکثریت کی بنیاد پر حکومت کرنا 22کروڑ عوام کو اپنا غلام سمجھنے کے مترادف ہے ،ہماری جدوجہد اس جعلی حکمرانی سے آزادی کی جنگ ہے بلکہ یہ کسی بڑے جہاد سے کم نہیں جو ان جعلی حکمرانوں کے خلاف لڑا جارہاہے اس حوالے سے آج کوئٹہ میں مہنگائی کے خلاف پی ڈی ایم کے قائدین کی قیادت میں عوامی مظاہرہ ہوگا اور ریلی نکالی جائے گی اور اپنے اس موقف کو اجاگرکیاجائے گاکہ پوری قوم کوایک ناجائز اور چوری کردہ ووٹ کی بنیاد پر حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ ہے اور پی ڈی ایم اس حوالے سے وہ سیاسی قیادت ہے جو نازک ماحول میں عوام کی شانہ بشانہ کھڑی ہے ہم نے قوم کوتنہائی کااحساس نہیں دلابلکہ ہم ان کے ساتھ شانہ بشانہ اور ان کی آواز ہے . قوم کیلئے جنگ ہمارا فریضہ اور سعادت ہے . انہوں نے کہاکہ 20نومبر کو پشاور میں عوامی مظاہرہ کیاجائے گا جہاں پر خیبرپشتونخوا کے عوام اس احتجاج میں شریک ہونگے ہم قوم کو بتاناچاہتے ہیں کہ ناجائز حکمران اور دھاندلی کی پیداوار حکومت آئندہ الیکشن کیلئے ابھی سے اپنی جعلی پارلیمنٹ کو ایسے قانون سازی کیلئے تیار کررہی ہے کہ آئندہ بھی الیکشن میں آسانی سے دھاندلی کرسکے لیکن حزب اختلاف سینہ سپرد ہوکر اس کامقابلہ کررہی ہے اسمبلی کے اندر حزب اختلاف حکومت کو قانون سازی میں شرکت دے چکی ہے مشترکہ اجلاس میں حکومت کو اکثریت حاصل کرنے کی امید نہ رہی تو اجلاس ملتوی کردیاگیا . آج جب دوبارہ اجلاس بلایاگیاہے تو افواہیں گشت کررہی ہے یہ صرف افواہیں ہی نہیں بلکہ حقیقت کے قریب تر باتیں ہیں کہ چھوٹی جماعتیں جو ان کی اتحادی ہے ان کو ریاستی ادارے دبائو میں لا کر ان کا گردن مروڑ کر انہیں مجبور کیاجارہاہے کہ وہ اجلاس میں شرکت کریں . مولانافضل الرحمن نے کہاکہ ہمارے پاس رپورٹیں آرہی ہے ادارے ہمارے لئے قابل احترام ہے جب ادارے کہتے ہیں کہ ہم غیرجانبدار ہیں اور یہ بہت بڑی سطح پر یہ بات کی جاتی ہے تو ہم مان لیتے ہیں لیکن آج پھر ان کی غیر جانبداری مجروح ہورہی ہے ،آخر ضرورت کیا ہے کہ یہ سب کچھ 19نومبر سے پہلے پہلے کرناہے ،نہ 19نومبر نہ 19نومبر کے بعد یہ تمام معاملے کومشکوک بناتا ہے کہ شاید سیاسی اداروں یا ان کی شخصیت کے ساتھ وعدے کی بنیاد پر ایسا کیاجارہاہے کہ پاکستان کے جمہوری اور پارلیمانی کردار پر ایک بدنما داغ ہے ،انہوں نے کہاکہ اداروں کوخود سوچنا چاہیے کہ ہمیں غیرجانبدار وغیر متنازعہ رہناہے ہم خود بھی اداروں کو غیر جانبدار وغیر متنازعہ دیکھناچاہتے ہیں یہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کی سیاست سے یہ داغ ختم ہوجائیں . انہوں نے کہاکہ اگر سیاست میں ناجائز مداخلت ہوتی ہے تو پھر گلہ ہمارا حق ہے ،انہوں نے کہاکہ ہم نے فیصلہ کیاہے کہ ہم آئندہ آئینی وقانونی راستہ اختیار کرینگے ،پی ڈی ایم نے شاہد خاقان عباسی کو یہ ذمہ داری سونپی ہے اور فوری طورپر کامران مرتضیٰ اور عطاء تارڑ سے رابطے کرکے سپریم کورٹ کی سطح پر قانونی پینل بنائیں اور ان قوانین کاجائزہ لیں تاکہ ہم عدالت سے رجوع کرسکیں ہم آئین وقانون کا راستہ لیناچاہتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ احتجاجی مظاہرے جمہوری ماحول میں عوام کو تسلی دینے کیلئے ناگزیر آمر ہے ملکی صورتحال پر قوم کو اعتماد میں لیناچاہتے ہیں پی ڈی ایم اس بات پریقین رکھتی ہے کہ ملک میں امن وامان ہونا چاہیے اور یہ تب ممکن ہے جب شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ ہوں ،صوبوں کے حقوق کا تحفظ ہوں شہریوں اور ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوں تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کیاجاتاہے اور پھر ان کے پیارے سالہاسال ان کی بازیابی کیلئے درد ر کی ٹوکریں کھا رہے ہیں والدین کے آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہوگئے ان کے دلوں کے زخم کیلئے مرہم بھی ختم ہوگیاہے لیکن شقی القب قوتیں سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ ریاست کی خدمت کررہے ہیںاگر ایسا کوئی بات ہے تو پھر آئین اور قانون موجود ہے انصاف کاتقاضاہے کہ آئین وقانون کے تحت مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائیں . ایک جمہوری ماحول میں اور جمہوری ملک میں ایسے واقعات کہ جس طرح ایک ڈکٹیٹر میں ہوتے ہیں ایسے واقعات بادشاہوں کی اقتدار میں ہوتے ہیں تو پھرہمارے ملک اور ان کے ملک میں کیا فر ق ہے ؟ نادیدہ قوتیں ملک کا حاکم ہیں یا آئین وقانون کی روشنی میں کام کرنے والے ملک کے مالک ہیں ؟ یہ تمام وہ مسائل ہیں کہ جس کیلئے پورے ملک کے طول وعرض میں اضطراب اور تشویش پائی جارہی ہے ،ہم مطمئن اور اضطراب سے پاک معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں جہاں ہر انسان اپنے حقوق کے حوالے سے مطمئن ہیں . گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کے الزامات سے متعلق جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ایسے چیزیں عدالت پر ایسے داغ ڈال رہے ہیں کہ جس سے ماضی کے تمام فیصلے مشکوک ہوجاتے ہیں لیکن ہم پھر بھی اصول کا راستہ اپنائیںگے اور سمجھتے ہیں کہ اس کا عدالتی تحقیقات ہوناچاہیے آزاد وخودمختار ادارے بننے چاہیے کہ اس طرح کے بیانات کا تجزیہ کرسکیں اور اس کے عوامل سمجھ سکیں یہ تیسرا چوتھا جج ہے جو اس قسم کی گفتگو کررہاہے اور آن ریکارڈ حلفیہ طورپر کررہے ہیں ان چیزوں کو جانچنا چاہیے جنہوں نے یہ بات کی وہ زندہ ہے ،انہوں نے کہاکہ ہر چیز پر مٹی پائو مٹی پائو سے بات آگے نہیں بڑھے گی انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم انسانی حقوق کی بات کریگی یہ معاملہ پورے ملک میں تعلیمی اداروں ،دینی مدارس ،کالجز اور یونیورسٹیوں سے نوجوانوں کو اٹھایاجاتاہے اگر کوئی نوجوان ریاست مخالف عمل میں ملوث ہے تو ہماری نظر میں وہ مجرم ہے لیکن اس کیلئے آئین وقانون کارااستہ اختیار کرناچاہیے جبری طورپر یہ کیا معلوم کہ آپ نے کس کو سزا دی کس کو نہیں دی . ایک خفیہ ادارہ اور چند افراد وہی سمجھیں کہ ہم مطمئن ہیں ہم نے جو کچھ کیاہے یہ کافی نہیں قوم کو مطمئن ہوناچاہیے ،مولانافضل الرحمن نے کہاکہ حکومت چل نہیں رہی حکومت چلائی جارہی ہے اور ہم چلانے والوں کو بھی جانتے ہیں اور چلنے والوں کو بھی جانتے ہیں اپاہج حکومت اور سہارے سے چلنے والی حکومت یہ حکومت نہیں کہلاتی بلکہ حکومتیں عوام کے سہارے چلنی چاہیے مجھے بڑا افسوس اور دکھ ہوتاہے کہ جب ہمارے اداروں کے ذمہ داران اور سربراہان اس وزیراعظم کو منتخب وزیراعظم کے نام سے پکارتے ہیں جب وہ ان کو اپنا باس کے نام سے پکارتے ہیں تو ہمیں دکھ اور افسوس ہوتاہے ہمارے پاس بہت کچھ ہے کہنے کو لیکن ہم اجتناب کررہے ہیں کہ کہیں بہت زیادہ ملکی معاملات خراب نہ ہوں ہم صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے سوچتے ہیں ہمارے ان جذبات کااحترام کیاجائے . انہوںنے کہاکہ حالات کودیکھیںگے حکومت کو اکثریت حاصل نہیں اتحادی کل تک حکومت کوووٹ دینے کیلئے تیار نہیں تھی ہمارے پاس رپورٹیں آئی ہیں کہ کن کن لوگوں کو محفوظ پناگاہوں میں لے جایاگیاہے کن لوگوں کو فون کئے گئے اور پھر اپوزیشن ممبران کو فون کئے گئے کہ آپ نے نہیں آنا وہ بھی ہمارے رپورٹ میں ہے اس کامطلب یہ زبردستی اور جبری والی اکثریت ہے اس طریقے سے کھینچ تان کر زبردستی اور گردن مروڑ کر ووٹ حاصل کرنے سے اگر کوئی قانون بنتاہے تو وہ قانون کوئی اہمیت نہیں رکھتا . ملک جبر کے تحت چل رہاہے ،انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے عوام نہ کسی گیس کی توقع رکھیں نہ پیٹرول ،چینی اور نہ ہی گھی کی توقع رکھیں یہاں تو ہر روز لوگ سوچتے ہیں کہ کل کتنی کمی آئے گی اور کتنے بڑھیںگے ڈالر کامعاملہ 180تک پہنچ گیاہے بازار میں روپے کی قیمت ہی نہیں رہی کہتے ہیں کہ باہر سے جو پیسہ آتاہے اس سے ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور گھر کو زیادہ پیسہ ملتاہے اس کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ پیسہ بازار میں جائیں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ نمائشی قسم کی باتیں ہیں کہ کل لوگ 105روپے وصول کرتے ہیں اور آج 175وصول کرینگے لیکن بازار میں کل جو چیز بازار میں 105میں ملتاتھا آج وہ 180میں نہیں ملے گا،انہوں نے پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی سے متعلق سوال کے جواب میں کہاکہ اس کو اب تک ہم سنجیدہ عمل نہیں سمجھتے بلاول ہمارے پاس آئے ہیں تو ہم نے کسی کو اپنے گھر آنے سے نہیں روکا پی ڈی ایم کے ساتھ ان کامسقبل کیا ہے اس پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے ،میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف کی آرمی چیف سے ملاقات سے متعلق سوال کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ،اب تو مسئلہ ہے کہ حکومت ہمیں رونے کا بھی حق نہیں دیتی بدحالی کی وجہ سے قوم رو رہی ہے ایک شخص چارپائی پر ہے اور وہ کہتاہے کہ میرا علاج کرو وہ چیخ رہاہے توپھر آپ کہے کہ آپ اپنے علاج کو مشکل بنا رہے ہیں یہ بے وقوفی اور حماقت والی حکومت ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ان کے پاس نہ کوئی سوچ ہے اور نہ ہی فلسفہ آگئے حکومت پر بیٹھ گئے ،انہوں نے کہاکہ وہ لوگ جو کل تک ان سے امیدیں وابستہ کئے تھے آج رو رہے ہیں ایک پڑھا لکھا شخص کیوں ان جیسے لوگوں سے امیدیں لگاتاہے ہم بھی تو پاکستان کے شہری ہیں جو وسائل ہیں اسی ملک ہے ہم نے بہت پہلے کہاتھاکہ آپ بہت بڑی غلطی کررہے ہیں غریب ملا کی اذان پر کلمہ بھی پڑھ لیاکریں . انہوں نے نوازشریف کی واپسی سے متعلق سوال کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ رابطے کامطلب یہ ہے کہ وہ آرہے ہیں اس کے علاوہ ملک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے آنے یا نہ آنے کامسئلہ اس کااپنا ہے دنیا وابستہ ہے ہم نے کل بھی زوم پر میٹنگ کی ہے ایسے بیٹھے تھے جیسے سارے آمنے سامنے بیٹھے ہیں . انہوں نے اسدعمر کے بیان سے متعلق پوچھے گئے سوال کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ بھڑکیں نہ مارا کریں ہمیں بھڑکیں معلوم ہیں اگر اپوزیشن نے فیصلہ کیاکہ تمہیں اٹھا کر باہر پھینکیں پھر کیا کرو گے تمہاری حیثیت کیاہے ؟ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر ہم اپوزیشن میں بیٹھے تھے نواب زہری کی حکومت میں بھی ہم اپوزیشن میں تھے اگر حکومت ساری آکر اپوزیشن میں بیٹھ جائیں توپھر ہم نے کیا کرناہے جب ساری حکومت اپوزیشن میں آجائیں اور میں پہلے سے اپوزیشن میں تھے اور سارے حکومتی ہمارے دامن میں گرے تو پھر ہم نے حالات کے مطابق فیصلے کرنے ہیں وہ نہ آتے ہم نے کوئی درخواست تو نہیں کی تھی . ہم نے اپوزیشن میں برقراررکھنے کافیصلہ کیاتھا تمام تر صورتحال کی تبدیلی کے باوجود ان کی حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیاتھا اصول کے مطابق فیصلہ کیاہے اصول سے نہیں ہٹیںگے ،انہوں نے پنجاب حکومت گرانے سے متعلق سوال کے جواب میں کہاکہ پنجاب کی حکومت گرانے سے متعلق سوچاجائے کہ متبادل کیاہے ؟ اگر متبادل اس سے بھی زیادہ خراب ہوں تو پھر کیا کرینگے معاملات سیاستدانوں پر چھوڑ دیں ہم حساب کتاب ٹھیک رکھتے ہیں . .

متعلقہ خبریں