وفاقی بجٹ نے خطرے کی گھنٹی بجادی، اشیا خورونوش اور روزمرہ استعمال کی چیزوں پر بھاری ٹیکس

اسلام آباد(قدرت روزنامہ)وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے عوام پر مہنگائی کا نیا طوفان چھوڑ دیا ہے۔ بجٹ میں متعدد روزمرہ استعمال کی درآمدی اشیا اور صنعتی آلات پر ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں جن میں خوردنی اشیا، طبی ساز و سامان، تعمیراتی مشینری، اور بجلی سے چلنے والے آلات شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، درآمدی ٹماٹر، مٹر، دالیں، کھجور، موسمی، کیک، دودھ، دہی، اور پولٹری جیسے بنیادی خوراکی اجزا پر اب اضافی ٹیکس دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ، سرجیکل آلات، جم کا سامان، ورزشی مشینری، انسولین سرنج، سولر چارجز، سی این جی کٹ، پام آئل، تمباکو، اور تعمیراتی مشینری پر بھی کسٹم ڈیوٹی یا جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
فنانس بل کے تحت دودھ پروسیسنگ پلانٹس کی درآمد پر ٹیکس دو فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ مویشیوں اور پولٹری کے شیڈز پر دو فیصد اضافی ٹیکس لاگو ہوگا، جب کہ جانوروں کی فیڈ بنانے والی تمام مشینری پر بھی دو فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
ڈیری مصنوعات کی مشینری پر تین فیصد، اور ڈیری شیڈز میں لگنے والے پنکھوں پر تین فیصد ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ میڈیکل، سرجیکل، ڈینٹل اور ویٹنری فرنیچر، ایمرجنسی لائٹس، اور اسپتالوں میں استعمال ہونے والے مکینیکل فٹنگز والے بستروں پر بھی اب پانچ فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔
اسی طرح جم اور ورزشی سامان پر تین سے پانچ فیصد تک ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جب کہ آگ بجھانے والے آلات، کینولا اور انسولین سرنج پر بھی پانچ فیصد ٹیکس نافذ ہوچکا ہے۔
تعمیراتی مشینری اور سامان پر تین سے پانچ فیصد ٹیکس، اور سولر چارجرز پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ڈمپرز اور کرینز کی درآمد پر بیس فیصد تک بھاری کسٹم ڈیوٹی لگائی گئی ہے، جب کہ پام آئل، ویجیٹیبل آئل اور کیسٹر آئل پر پانچ فیصد ڈیوٹی لاگو کر دی گئی ہے۔ سی این جی کٹس بھی اب پانچ فیصد کسٹم ڈیوٹی کے دائرے میں آ گئی ہیں۔
تاہم، حکومت نے برقی گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف فراہم کرتے ہوئے الیکٹرک آٹو رکشہ، الیکٹرک موٹرسائیکل، اور تین پہیوں والے برقی لوڈر پر کسٹم ڈیوٹی میں پچاس فیصد کمی کر دی ہے۔ اس رعایت کا دائرہ الیکٹرک کاروں تک بھی بڑھا دیا گیا ہے، جس سے اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھنے کی امید کی جا رہی ہے۔
ماہرین معاشیات کے مطابق یہ بجٹ عام آدمی پر براہ راست اثر ڈالے گا، خاص طور پر خوراک اور طبی اشیا پر ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات معاشی استحکام اور مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔