وقت آگیا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں ،70سالوں سے جاری رویہ کے خاتمے کیلئے عوام کواٹھ کھڑاہونا ہوگا ،علی احمد کرد
سینئر قانون دان علی احمد کردایڈووکیٹ نے کہاکہ عاصمہ جہانگیر غریبوں اور ملک کے مظلوم عوام کی آواز تھی جس نے بلارنگ ونسل تفریق سب کیلئے آواز بلند کی وہ کبھی یہ نہیں دیکھتی تھی کہ یہ آواز یہ چیخ کن کی کانوں میں ہلچل مچائے گی مگرآج اس آئرن لیڈی عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے تقریب میں جو موضوع رکھاگیاہے وہ قطعاََ صحیح نہیں ہے انسانی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا کردار اور جمہوریت کی مضبوطی ‘‘ کی بات ہے ،انہوں نے سوال اٹھایا کہ کونسی عدلیہ موجود ہے ؟ وہ جو ہمارے سامنے اور اس میں ہم پیش ہوتے ہیں وہ جوڈیشری جہاں صبح 8بجے سے لیکر ڈھائی بجے تک لاکھوں لوگ اپنے لئے انصاف اور داد رسی کیلئے موجود ہوتے ہیں جب سائلین ڈھائی بجے اپنے گھروں کو جاتے ہیں تو اپنے سینے پر ایک زخم لیکر جاتے ہیں یہ موضوع کہ ہماری عدلیہ انسانی حقوق کاتحفظ اور جمہوریت کو مضبوط کریگی بہت ہی چھوٹا موضوع ہے بین الاقوامی ماہرین کے مطابق ہماری عدلیہ 130 میں سے 126ویں نمبر پر ہے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے ایک صحافی نے انٹرویو لینے کیلئے سوال کیاکہ دنیا بھر میں پاکستان کی عدلیہ 130میں سے 126ویں نمبر پرہے جس پر میں نے جواب دیاکہ بحیثیت پاکستانی کیاآپ اس پر خوش نہیں کہ نیچے سے ہم 4نمبر اوپر ہے . انہوں نے کہاکہ یہ مذاق اب بند ہوناچاہیے جو عدلیہ موجود ہے افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ اس ملک کی جوڈیشری کیلئے جتنی قربانیاں دی گئی ہے اس میں سب سے پہلے علی احمد کرد تھا اس لئے عدلیہ پر بات کرنا میرا حق ہے اور میں کوئی ذاتی مقصد کیلئے نہیں کررہا یہ میرا حق ہے انہوں نے کہاکہ عدلیہ ہمارے لئے قابل احترام ہے ،عوام کیلئے ریلیف کیلئے لڑتے ہیں دنیا میں 126ویں نمبر پر آنے والی عدلیہ بھی تقسیم کاشکارہے اس سے لوگوں کو کیا پیغام ملے گا مجھے افسوس ہوتاہے میں ایک ذمہ دار شخص ہوں ہم اس حالت تک کیوں پہنچے ہیں یہ ملک 22کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایک جرنیل 22کروڑ عوام پر بھاری ہے اس کیلئے یا تواس کو نیچے آناپڑے گا یا پھر22کروڑ عوام کو اوپرجاناپڑے گااب برابری ہوگی عام پاکستانی اورایک جرنیل میں کوئی فرق نہیں ہوگا اسی جرنیل نے ہماری عدلیہ کو126ویں نمبر پرپہنچایاہے آج اس ملک میں انٹلیکچول کلاس ختم ہوچکی ہے اور کوئی مڈل کلاس درمیان میں نہیں رہا ،اوپر بیٹھے لوگ چھوٹے چھوٹے قد کے لوگ ہیں . انہوں نے کہاکہ وقت آگیاہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں جو 70سال سے آنکھیں دکھا رہے ہیں ان کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ضرورت ہے ہم نے بحیثیت سیاسی کارکن ملک کی بہتری کیلئے ایک طویل جدوجہد کی ہے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتاہوں کہ اٹھو یہ ملک مٹی میں ریت کے ذرے کی طرح گر رہاہے اب بھی عوام کے پاس وقت ہے جس طرح کے حالات ہے اس میں ملک کو مزید نہیں رکھاجاسکتا ملک کی بہتری کیلئے ہمیں کشتیاں جلانا پڑیںگی جب ہم جان کی بازی لگائیںگے تو یہ ملک بچے گا بلوچستان میں لوگوں کو اٹھا کرلے جاتے ہیں اور ان کا کوئی پتہ نہیں ہوتا . . .