اخبارات کے اشتہارات میں کمی کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں کی فراہمی مشکل۔

 

رپورٹ: ندیم خان

  احمد گزشتہ 10 سالوں سے بلوچستان کے مختلف اخباروں کے ساتھ کام کرتے آرہے ہیں انہوں نے صحافت کے میدان میں قدم 2010 میں رکھا تاہم مہنگائی کے اس دور میں اسکے لئے صحافت کو جاری رکھنا مشکل بنا دیا . احمد جو کہ فرضی نام ہے، نے اپنی شناخت ظاھر نہ کرنے کی شرط پہ گفتگو کرتے ہوئے بتایا" کہ میری تنخواہ محض 14 ہزار روپے ہے جس میں گھر چلانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ساہے .

اب تو مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ گھر میں مالی مشکلات مذید بڑھ گئیں ہیں . " احمد بتاتے ہیں کہ انکے ایک بھائی سرکاری ملازم ہیں جسکی تنخواہ سے گھر کا گزارا ہو ہی جاتا ہے ورنہ صحافت کی تنخواہ سے گھر چلانا کہاں ممکن ہے . انہوں نے مذید بتایا کہ " اکثر اخباری مالکان سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اشتہارات نہیں مل رہے، ہم خود بمشکل اخبار چلاتے ہیں، لیکن اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا انہیں اچھے اشتہارات ملتے ہیں، لیکن چند ایک چھوٹے اخبارات ضرور ہیں جنہیں مالی مشکلات درپیش ہوں . وہ بتاتے ہیں کہ ہماری تنخواہ سرکاری طور پر مختص کم از کم اجرت 20 ہزار تک ضرور ہونی چاہئے . بلوچستان حکومت کے بجٹ 2021-22 کے مطابق مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 20 ہزار مقرر کی گئی ہے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف محکمہ لیبر اینڈ مین پاور میں شکایات درج کرائی جا سکتی ہیں اسی ضمن میں شکایات کے لئے نمبر بھی اخبارات میں شائع کئے گئے ہیں . اس حوالے سے جب ڈائیریکٹر جنرل لیبر ایند مین پاور سے بات کرنے کی کوشش کی گئی پر انکا جواب اب تک سامنے نہیں آسکا . محکمہ تعلقات عامہ کے مطابق بلوچستان بھر سے قریب 250 چھوٹے بڑے اخبارات شائع ہوتے ہیں . . لفظ صحافت سنتے ہی ذہن میں اخبار کا تصور ابھرتا ہے . پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ہو یا جمہوریت کے استحکام کے مراحل، معاشرے میں علم و ادب کے فروغ کے معاملات ہوں اخبارات اور رسائل نے ہمیشہ اہم کردار ادا کئے . ملک میں سیاسی استحکام، معاشی ترقی، تجارتی سرگرمیوں کے فروغ، ثقافت کے تحفظ اور عادتِ مطالعہ کے فروغ میں اخبارات و رسائل کا کردار نمایاں ہے . اخباری اداروں کی اپنی معیشت حلقہ قارئین اور اشتہارات سے منسلک ہے . دنیا بھر میں صنعت، تجارت، زراعت، سیاحت، انٹرٹینمنٹ اور دیگر کئی شعبے پرنٹ میڈیا کو اشتہارات کی فراہمی کے بڑے ذرائع ہیں . پاکستان میں ان میں سے بعض شعبوں پر مشتمل پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ پبلک سیکٹر یعنی حکومت بھی بڑے ایڈورٹائزرز میں شامل ہے . پاکستان کے اخباری اداروں کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) ہے . اس ادارے کے بنیادی فرائض رکن مطبوعات کے مفادات کا تحفظ، انہیں اے پی این ایس سے منظور شدہ (Accrediated) اشتہاری ایجنسیوں کے ذریعے ملنے والے اشتہارات کی رقوم کی ادائی یقینی بنانا ہے . اس لحاظ سے اے پی این ایس کا کردار ایک کلیئرنگ ہاؤس کا بھی ہے . حکومت پریس تعلقات اے پی این ایس کے ایجنڈے پر ہمیشہ ایک اہم نکتہ رہے ہیں . حکومت پریس تعلقات پر بحث میں پرنٹ میڈیا کے بارے میں حکومتی پالیسیوں، قانون سازی یا اخباری اداروں پر کسی وقت پڑنے والے حکومتی دباؤ پر بات ہوتی رہی ہے . اخبارات و رسائل کو سرکاری اشتہارات کی پالیسی، اشتہارات کے واجبات کی اخبارات کو ادائی بھی مخصوص موضوعات رہے ہیں . بلوچستان کے ایک مقامی اخبار مالک نے نام نہ ظاھر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے اخباری صنعت زوال کا شکار، ورکرز کو تنخواہیں فراہم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے . لیبر آرگنائزیشن کے عہدیدار پیر محمد کاکڑ بتاتے صحافیوں کے کو کم معاوضہ فراہم کرنا سراسر کم از کم اجرت کے قانون کی خلاف ورزی ہے . جسکے خلاف متعلقہ محکمہ کو کاروائی کرتے ہوئے جلد ازجلد اس قانون پر عملد در آمد کرنا چاہئے . وہ مذید بتاتے ہیں کہ صحافی خود کو ای او بی آئی ( اولڈ ایج بینیفٹ ) میں اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں جس سے 60 سال کے عمر کے بعد انہیں ماہانہ 8500 کی رقم ملے گی . وہ بتاتے ہیں کہ یہ رقم تو کافی ہے تاہم اس سہولت سے علاج معالجے کی مد میں بھی گرانٹ فرہم کی جاتی ہے . وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صحافی ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کروائے تاہم ایسے صحافیوں کی تعدا کم ہے . وہ مذید بتاتے ہیں کہ " ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ورکرز کو اچھی تنخواہ ملے اور وقت پر ملیں لیکن گزشتہ تین سال سے اخباری صنعت بحران کا شکار ہے . عمران خان کی حکومت کبھی ڈجیٹل پالیسی کی بات کرتی ہے تو کبھی میڈیا پر قدغن لگانے کی بات کرتی ہے ایسے اقدامات اخباری صنعت اور اظہار آزادی کو نقصان پہنچائے گے . " نام نہ ظاھر کرنے کی شرط پر ایک بڑے مقامی اخبار کے ایڈیٹر نے بتایا کہ انہیں محض 8 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے . جسکی وجہ سے وہ دن میں کوئی اور کام کرتے ہیں . انہوں نے مذید بتایا کہ اکثر اخبارات میں رپورٹرز اور فوو گافرز کو تنخواہ تک نہیں دی جاتی جسکی وجہ سے وہ لفافہ جرنل ازم کی طرف جاتے ہیں . رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں اخباری صنعت سے ہزاروں خاندان کا روزگار وابسطہ ہے بی این پی اخباری صنعت کے ساتھ کھڑی ہے اور مسائل کے حل کیلئے ہرممکن تعاون کریگی . انہوں نے مذید بتایا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت میڈیا پر قدغن لگانا بند کرتے ہوئے، بالخصوص مقامی اخبارات کے اشتہارات کی منصفانہ تقسیم کے عمل کو یقینی بنائے . وہ مذید بتاتے ہیں کہ اخباری مالکان کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ورکرز کا خیال رکھے اور جہاں کہیں بھی صحافیوں کو کم تنخواہیں فراہم کی جاتیں ہیں انہیں معقول تنخواہ فراہم کی جائے . بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر سلمان اشرف نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، گزشتہ تین سالوں میں اخباری صنعت کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جسکی وجہ اشتہارات پر کٹ لگناہے . وہ بتاتے ہیں کہ ہر صحافی کو معقول تنخواہ فراہم کی جانی چاہئے تاکہ صحافی کو پیشہ وار امور انجام دہی کے وقت مشکلات نہ ہوں . وہ کہتے ہیں ہم اڈ مسئلے کو اجاگر کریں گے . محکمہ . تعلقات عامہ کے ڈی جی شہزادہ فرحت نے بتایا کہ محکمہ اپنی خدمات بخوبی سر انجام دے رہا ہے، ہماری کوشش ہے کہ اخبار سے منسلک کسی بھی صحافی کو منساسب تنخواہ فراہم کی جائے اس حوالے سے محکمہ ہر سال آڈٹ رپورٹ طلب کرتا ہے، تاکہ اخبارات کے نمائندوں سمیت دیگر تفصیلات معلوم کی جائے . انہوں نے بتایا کہ اگر صحافی کو مناسب تنخواہ وقت پر ادا نہیں کی جاتی تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ صحافی لفافہ جرنل ازم کی جانب راغب ہوگا . . .

متعلقہ خبریں