قرضوں کا بوجھ ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بن گیا ،عمران خان سچے ہیں تو استعفیٰ دے کر میدان میں آئیں ،احسن اقبال کا چیلنج
احسن اقبال نے کہا کہ اسٹیٹ بنک نے رپورٹ شائع کر کے عمران خان کو آئینہ دکھا دیا ہے،پہلی دفعہ سوا تین سال میں قرضوں اور ادائیگیوں کا حجم 50 کھرب سے زائد ہو چکا ہے ،39 ماہ میں 20 اعشاریہ فیصد اضافہ ہوا ہے ، گزشتہ دور کی نسبت موجودہ دور میں قرضوں میں ستر فیصد اضافہ ہوا ہے ،عمران خان یاد دلاتے تھے کہ ہر پاکستانی کی گردن پر کتنا قرض ہے،دو ہزار اٹھارہ میں ہر پاکستانی کے ذمے ایک لاکھ چوالیس ہزار قرض تھا،عمران خان کی وجہ سے سوا تین سال میںہر پاکستانی پر قرض میں91ہزار روپے اضافہ ہوا جو کہ 63فیصد بنتا ہے اس کا جواب کون دے گا،اگر اکہتر سالوں کے قرضے کی اوسط نکالیں تودو ہزار اٹھارہ تک تو دو ہزار روپے اوسط سالانہ بنتا ہے،اگر تحریک انصاف کی حکومت کی اوسط نکالیں تو اٹھائیس ہزار روپے اوسط فی کس بنتی ہے،دو ہزار آٹھ سے ٹھارہ تک جتنا قرض لیا گیا عمران خان کی تین سال کی حکومت میں اس سے زیادہ قرض لے کر مقروض کیا گیا،عمران خان نے ایک ڈیٹ کمیشن بنایا تھا تو اس کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے؟اس لیے کمیشن کی رپورٹ نہیںعوام کے سامنے لائی جا رہی کیونکہ کمیشن نے کہا کہ آپ نے دس سال سے زیادہ قرض لے لیا ہے . انہوں نے کہا کہ ہم نے ہانچ سالوں میں دس ہزار ارب کا قرض لیا تھا تو منصوبے بھی بنائے،ہم نے دس ہزار ارب کی پائی پائی کا حساب بھی رکھا ہے،عمران خان بتائیں انہوںنے جو سولہ ہزار ارب کا قرض لیا ہے وہ کہاں گیا ؟،عمران خان نے سولہ ہزار ارب خسارہ پورا کرنے کے لیے لگا دیا، اس قرض سے کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنایاگیا ، یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ پچھلی حکومتوں کا بوجھ اتار رہے ہیں،کس نے کہا تھا کہ شرح سود دگنی کریں،بہت دیر سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن بنایا جائے،قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو بھی غلطیاں ہوئی ہیں ان کی تحقیقات کی جائیں . احسن اقبال نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جو پروگرام طے کیا گیا ہے اس میں حکومت 20روپے لیٹر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کرنے کی پابند ہو چکی ہے، اس سے پہلے جو پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھائی گئیں اس نے معیشت کی جڑیں ہلا دی ہیں جب مزید اضافہ کیا جائے گا تو اس کا لا محالہ بجلی اور گیس پر بھی اثر پڑے گا او رعام آدمی کی زندگی پر تباہ کن اثرات ہوں گے جس سے مہنگائی کی ایسی سونائی آجائے گی کہ لوگ پچھلی مہنگائی کو بھول جائیں گے . انہوں نے کہا کہ حکومت معاہدے کے اندر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو پاکستان کی پارلیمنٹ عوام کی نگرانی سے نکال کر براہ راست آئی ایم ایف کی نگرانی میں دینے جارہی ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں او راس کی مخالفت کریں گے . واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مئی 19967ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسٹیٹ بینک کو فنانشل یا مانیٹری پالیسی کی مینجمنٹ اور مانیٹرنگ کی مطلوبہ آزادی دیدی تھی جس کے تحت اسٹیٹ بینک کے پاس کل اختیار ات ہیں تاکہ وہ بینکنگ سیکٹر کو ریگولیٹ کر سکے ،اس کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ آزادانہ پاکستان کی مانیٹری پالیسی کو طے کرے اور اس بات کا فیصلہ کرے کہ اسٹیٹ بینک سے حکومت پاکستان کتنا قرضہ لے سکتی ہے . اسٹیٹ بینک کو اختیارات دئیے جا چکے ہیں کہ فنانشل ادارے ،بینکنگ سیکٹر اور ڈی ایف آئی ایز کے چیف ایگزیکٹو اور ان کے بورڈز کی تقرری اسٹیٹ بینک کی منظوری سے ہونی ہے . دنیا کے کسی بھی ملک کے اندر جو خود مختار ملک ہیںان میں یہی اختیارات ہیں جو وہاں کے سنٹرل بینک کو دئیے جاتے ہیں او ریہ مئی 1997ء میں اسٹیٹ بینک کو (ن)لیگ کی حکومت نے دیدئیے تھے . حکومت یہ پیکج لا رہی ہے جس کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان میں وائسرائے کی حیثیت اختیار کر لیں گے اورپاکستان کی پارلیمنٹ بھی ان سے سوال نہیں پوچھ سکے گی اور وہ شاید آئی ایم ایف کو جوادبدہ ہوں گے اورپاکستان کے کے اندر کسی عہدے یا ادارے کو جوابدہ نہیں ہوں گے . انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو این آر او دیا جارہا ہے جیسے اپنے وزراء کو دیا تاکہ کل کو ہاٹ منی سکینڈل کی تفتیش نہ کی جا سکے ،تیرا سوا تیرہ فیصد پالیسی ریٹ رکھا گیا جس کی وجہ سے لوگوں نے باہر سے سستا قرضحہ لیا اور پاکستان میں سوا تیرہ فیصد منافع کیا او رچاندی کر کے پیسہ لے گئے ،اس سے پاکستان کا بزنس او رمعیشت تباہ ہو گئی اور قرضوں کا بوجھ دگنا ہو گیا ،چند ہاتھ چاندی کر کے ملین ڈالرز بنا کر باہر چلے گئے اس کے پیچھے کیا منطق یا دلیل تھی . آج سات فیصد پر ڈیجیٹل روشن اکائونٹ چلایا جارہا ہے ، کوئی پوچھنا والا ہے کہ باہر سے ایک یادو فیصد پر قرضہ لے کر سات فیصد پیسہ کیوں اور کیسے بنا رہے ہیں اوراس کا بوجھ پاکستان پر ہے . یہ حکومت ہر شعبے کو این آر او دینے پر تلی ہوئی ہے اور ملک کو معاشی طور پر کنگال کردیا ہے ، پاکسان کو قرضوں کے دلدل میں دھنسا دیا ہے اور اپنی نا لائقی پر پردہ ڈالنے کے لئے پاکستان کو برائے فروخت کا بورڈ لگا دیا ہے ، پاکستان فار سیل کاسٹیکر پاکستان کی معیشت پر لگا ہوا ہے . جوچار آنے دے گا اورپاکستان سے آ کر لے جائے ،یہ بہت خطرناک صورتحال اور اسی وجہ سے جو تازہ ترین رائے عامہ کا سروے آیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ستاسی فیصد عوام کہہ رہے ہیں پاکستان غلط سمت میں جارہا ہے ،عمران خان کو اپنی نظر کامعائنہ کرانا چاہیے پتہ نہیں عمران خان او ران کے وزراء کو کونسا پاکستان نظر آرہا ہے . ستاسی فیصد پاکستانیوں کو ڈوبتا ہوا پاکستان نظر آرہا ہے، تینتالیس فیصد کہہ رہے ہیں ہمیں مہنگائی مار گئی ہے ، چودہ فیصد کہہ رہے ہیں بیروزگاری مار گئی اور بارہ فیصد کہہ رہے ہیں کہ غربت ہمیں مار گئی ہے ، ستر فیصد معاشی ابتری پر چیخ رہے ہیں لیکن حکمران کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے ،پاکستان جنت بن چکا ہے ، وزیر اعظم ہر روز نیا وزیر لگا رہے ہیں، ان کے پاس اپنے دوستوں کو نوازنے کے لئے اوروزیر بنانے کے لئے بجٹ کی کمی نہیں ہے لیکن غریب آدمی کوبجلی اور گیس سستی دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں،مہنگائی کم کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہیں، یہ حکمرانوں کی جنت ہے عوام اس وقت جہنم میں رہ رہے ہیں . غریب کسان ہمارے دور میں چوبیس سو روپے میںڈی اے پی کی بوری لیتا تھا آج ساڑھے نو ہزار روپے کی بوری مل رہی ہے ، گندم ی بوائی کا وقت ہے لیکن کسان ڈی اے پی کھاد خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اوربغیر کھاد ڈالے بوائی کر رہا ہے ،اگلے سال گندم کی پیداور میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے او رمزید گندم درآمد کرنا پڑے گی . مسلم لیگ(ن) نے زراعت میں خود کفیل پاکستان چھوڑا تھا آج ہم گندم ،چینی اورکپاس درآمد کر رہے ہیں ، ہنستے بستاپاکستان پانچ اعشایہ آٹھ فیصدسے ترقی کر رہا تھا ،سی پیک نے پاکستان کو سرمایہ کاری کا مرکز بنا دیا تھا آج اس پاکستان کی معیشت کو عمران خان نے ایک قرضستان اور کھنڈر بنا کر رکھ دیا اور ملک کا مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے . اب ملک کا ایک ہی حل ہے اس ملک کو معاشی میلٹ ڈائون اورقومی سلامتی کو بچایا جائے . آج قرض کے حصول کے لئے یہ شرائط ملی ہیں کہ اسٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ اور عوام کے کنٹرول سے نکالو ، کل قرض دینے والے کہیں گے میزائل پروگرام اور ایٹم بم کے حوالے سے بھی شرائط رکھیں گے . انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس تجربہ نہیں تھا ،ٹیم نہیں تھی ، حکومت کے لوگوں کو اس سے فرصت نہیں کہ اپوزشن کو گالیاں کیسے دینی ہیں، یہ گالیاں دینے میںچمپئن ہیںلیکن اپنے شعبے کا کام کرنے کا پتہ نہیں . وزیر خزانہ کہہ رہے ہیںوقت پر ایل جی کا سودا نہیں کیا گیا جبکہ ایک وزیر کہہ رہے ہیں یہ پچھلی حکومت کی ذمہ داری تھی . اس حکومت میں اتنے جوکر اور لطیفہ گر ہیں کہ شاید افریقہ کے کسی چھوٹے میں اتنے دیکھنے کو نہیں ملتے ،یہ اپوزیشن پر الزام تراشی کے سوا کوئی کام نہیں جانتے . آج صرف وزیروں کی تجوریاں بھر رہی ہیں . انہوں نے کہا کہ ہم سے رسیدیں مانگتے ہیں لیکن فارن فنڈنگ کی رسیدیں تو دیں ، اوورسیز پاکستانیوںسے لوٹ کھسوٹ کر کے انہیں لگی لپٹی باتیں سنا دیتے ہیں،آپ پھنسانے میں تو ملکہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ آپ کا پرانا گر ہے ،آپ اسی طرح کی باتیں سنا کر بیرون ملک پاکستانیوں سے کروڑوں روپے لے کر آئے اورانہیںخفیہ اکائونٹس میں ڈالا بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ، کیا کیا کاروبار کئے کیا کیا کرپشن کی دس سال ہو گئے ہیں اس کا حساب مانگا جارہا ہے اور آپ اس کی رسید یںنہیں دے سکتے ،آپ ہمیں کھڑے ہو کر کہتے ہیں لندن میں فلیٹس کی رسید دیں . جب شریف فیملی نے لندن میں فلیٹس خریدیے تھے اس سال شریف فیملی نے ایک ارب روپے کا ٹیکس دیا تھا جو ایک ارب روپے کا ٹیکس دے سکتا ہے وہ چار فلیٹس بھی خرید سکتے ہیں . آپ مجھ سے کم انکم ٹیکس دیتے ہیں لیکن آپ تین سو کنالوں کا محل کیسے چلا رہے ہیں . آپ دوسروں سے سوال پوچھتے ہیں اپنے گربان میں جھانکیں . آپ کی حکومت ملک کو بدترین قرضوں کے پھندے میںلے آئی ہیں اس کی اصل وجہ غلط فیصلہ ہے ،شرح سود کو دوگنا کر کے کے معیشت کو کریش کیا گیا ، آج ٹیکس آمدن میں ناکامی ہے ، جو خسارہ تھا بڑھتا گیا اس کی وجہ سے آپ قرض لینے پر مجبور ہو گئے اور عوام کے سروں پر کے ٹو پہاڑ کی طرح قرض کا پہاڑ کھڑا کر دیا ،اگر نالائقی کے پہاڑ کو نہ روکا گیا تو پاکستان کی قومی سلامتی سنگین طور پر متاثر ہو سکتی ہے ،آپ کے جانے کا وقت آگیا ہے ، اگر عمران خان میں سچائی کی سامنا کرنے کی صلاحیت ہے تو انہیں اقتدار چھوڑ دینا چاہیے اور میدان میں آئیں . خود سمجھ جانا چاہیے کہ یہ کھیل ان کے کھیلنے کا نہیں،حکمرانی او رملک چلانا ان کا وصف نہیں ،چونکہ ملک چلانے کے لئے یکجہتی پید اکرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ ایسا لیڈر جو مسلسل ملک کو تقسیم کر رہا ہے ،نفرت کے بیج بو رہا ہے انتشار پھیلا رہا ہے اور یہ پاکستا کے کسی بھی دشمن کے مقابلے میں پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے کم کردار ادا نہیں کر رہا . انہوں نے کہا کہ سب نے مشترکہ سیشن کا انجام دیکھ لیا ہے ،ہمیشہ جب تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو تو اس وق توقت ٹیلیفون چل جاتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ حکومت بچ گئی ورنہ حکومت ناکام ہو رہی تھی ، حکومت نے مشترکہ سیشن ملتوی کیا تھا لیکن ان کے بیل آئوٹ کے لئے ٹیلیفون ٹیلیفون آ گئے ،ٹیلیفونوں پر تو ہمارا کوئی اختیار نہیں ، یہ فون مسلم لیگ (ن) سے این او سی لے کر نہیں آتے . انہوں نے کہا کہ کئی ہفتوں سے پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ملک کے معاشی حالات کے خلاف باہر سڑکوں پر ہیں،عوام کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ کردار ادا کریں او رپاکستان کو بچائیں . انہوں نے کہا کہ سیاست میں ٹیکنالوجی کی مداخلت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ،سیاست کو کاغذ کے ٹکڑے تک ہی رکھنا چاہیے . انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے فیصلہ کن لانگ مارچ اور استعفوں کا فیصلہ کیا لیکن ایک جماعت کی وجہ سے فیصلہ نہیں ہو سکا ،اب یہ بات طے ہے کہ پی ڈی ایم 2022 میں انتخابات لازمی کروانے کے لئے لازمی اقدامات کرے گی ،اب اس حکومت کی وجہ سے قومی اداروں پر بھی تنقید شروع ہو گئی ہے ،حالانکہ خطے کے سکیورٹی حالات کا تقاضہ ہے کہ قومی اداروں کو ہر قسم کہ تنقید سے بالاتر ہونا چاہیے . انہوںنے کہا کہ ہم نے نظریے پر سودا کرنا ہوتا تو ہم جیلیں نہ کاٹتے اور ہمارے قائدین جھوٹے مقدمات کا سامنا نہ کر رہے ہوتے ،مسلم لیگ (ن)ایک نظریے اور بیانئے پر متحد کھڑی ہے اور اس میں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی ہے جو ہماری کامیابی ہے . ہم آزاد منصفانہ انتخابات اور آئین کی بالادستی کے لئے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرتے رہیں گے . انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی میڈیا ہائوسز کو کنٹرول نہیں کیا ورنہ ہمارے دور میں سب سے زیادہ ہم پر ہی تنقید ہوتی رہی ہے . . .