زور دار خودکش بم دھماکے کے فوری بعد فضاء میں کلمہ

رپورٹ: ندیم خان

  طیبہ کا ورد کرتی ایک آواز بلند ہوئی، ایک بار کلمہ مکمل پڑھا، دوسری بار کلمہ پڑھا ہی جا رہا تھا کہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوئی، اسکی آواز گھر والے کبھی نہ سن سکیے . یہ آٹھ اگست کا روز تھا کہ پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں منصوبہ بندی کے تحت وکیل بلال کاسی کو گھر سے نکلتے وقت گولیا مار کر قتل کیا گیا جس کے بعد انہیں سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا .

جب دیگر وکلاء کو واقع کی اطلاع ملی تو کوئٹہ کے سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے باھر وکلاء برادری کی بڑی تعداد پہنچی، وہیں آج نیوز کے کیمرہ مین شہزاد بلوچ واقعہ کو کور کرنے کے لئے موجود تھے . کوئٹہ کے سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کا احاطہ وکلاء سے بھرا تھا، کہ عین اسی وقت ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا . جس کے بعد ہر طرف پڑی لاشیں اور خون ہی خون نظر آرہا تھا، دھماکے میں شہزاد بلوچ شدید زخمی ہوا، موت کو سامنے دیکھتے ہوئے وہ کلمہ طیبہ کا ورد کررہا تاھ یہ تمام منظر اس کے کیمرے نے محفوظ کیا . دھماکے کے بعد بھی اسکا کیمرہ آن تھا . اس دھماکے 54 وکلاء سمیت کل 74 افراد مارے گئے جن میں دو صحافی شہزاد اور محمود بھی مارے گئے . ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے کی زمہ داری تحریک طالبان پاکستان سے منسلک تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی . 16 اگست 1986 کو پیدا ہونے والے صحافی شہزاد بلوچ نے سوگواران میں دو بیٹے ایک بیٹی سمیت بیوہ کو چھوڑا ہے . شہزاد کی والدہ گل بی بی کہتی ہیں کہ" اب تو صرف سانسیں چل رہی ہیں، میری جان تو 2016 میں چلی گئی تھی . مجھ سے شہزاد کبھی نہیں بھولا جاتا ہر دن کا آغاز اور اختتام اسی کی یادوں سے ہوتا، میں نے ہمیشہ شہزاد سے کہا کہ . صحافت چھوڑ دو لیکن اس نے میری بات نہیں شہزاد نےاپنی زندگی میں بہت کم ہی اچھے دن دیکھیں جب زندگی تھوڑی اچھے ہونے لگی تو وہ مجھ سے بچجڑ گیا . شہزاد کے جانے کے بعد نہ گھر پہلے کی طرح رہا اور نہ ہی گھر کے حالات ہے . گزشتہ سال انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی جانب سے جاری کردہ وائٹ پیپر آن گلوبل جرنل ازم کے اعداد و شمار کے مطابق" 1990 سے لیکر 2020 تک دنیا بھر میں مجموعی طور پر 2.658 صحافی مارے گئے ہیں، صحافیوں کے لئے خطرناک ممالک کی فہرست میں عراق سر فہرست ہے جہاں 340 صحافی مارے جا چکے ہیں . پاکستان اس فہرست میں چوتھے نمبر پر آتا ہے جہاں 138 صحافی مارے گئے ہیں . " پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے مطابق بلوچستان میں کل 42 صحافی مارے گئے ہیں جن میں سے 24 صحافی ایسے ہیں جنہیں براہ راست گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے، سینیر صحافی کے مطابق ان صحافیوں کے قتل کی بڑی وجہ صوبے کا شورش زدہ ( کونفلکٹ ) ہونا ہے اور صحافیوں کی کونفلکٹ رپورٹنگ کے حوالے سے تربیت کا نہ ہونا ہے . پاکستان کا صوبہ بلوچستان عرضہ دراز سے شورش ذدہ ہے جہاں بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں، سنی ہارڈ لائینر ٹی ٹی پی داعش کاروائیاں کرتی آرہی ہیں 9/11 کے بعد صوبے کے حالات مذید کشیدہ تر ہوتے چلے گئے. پاکستان فیڈل یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزادہ ذولفقار کہتے ہیں کہ" اسلام آباد جسیے شہر میں صحافیوں کے لئے حالات خراب ہیں تو فاٹا اور بلوچستان تو بعد میں آتے ہیں . شروع دن سے حکومت کو باور کراتے آرہے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ شہید صحافیوں کے ورثاء کے ساتھ تھوڑی بہت اپنی مدد آپ کے تحت مدد کی جائے" شہزادہ زوالفقار مذید بتاتے ہیں پاکستان میں صحافت شروع دن سے ہی آزاد نہیں رہی موجودہ وقت میں میڈیا کو حکومت کی جانب سے مالی مشکلات کا سامنا ہے اگر ایسا ہی چلتا رہا تو آنے والے وقتوں میں صحافت صرف کتابوں میں ملے گی. طالبان کے افغانستان میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکتسان متحرک دکھائی دے رہی ہے . تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے صحافیوں کے لئے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو سیکیورٹی اداروں سے جانبداری سے گریز کرنے کا کہتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لئے "دہشتگرد" اور انتہا پسند جیسے الفاظ نہ لکھیں جائیں . اعلامیے کے مطابق " ہمیں تحریک طالبان پاکستان کے نام سے پکارا جائے، بصورت دیگر آپ اپنی صحافیت کے ساتھ خیانت کے مرتکب ہونگے اور اپنے دشمن بنانے میں مددگار ہونگے . " صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں اس اعلامیے کو واضع تھریٹ قرارد دیتے . شہزادہ ذالفقار بتاتے ہیں " کہ تحریک طالبان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں واضع دھمکی دی گئی ہے، صحافی کو دونوں فریقین کی جانب سے دباو کا سامنا رہتا اگر کوئی صحافی کسی تنظیم کا موقف لیتا ہے تو اسے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دباو کا سامنا رہتا ہے، پاکستان میں صحافت اتنی میچور نہیں ہے کہ کوئی صحافی دونوں اطراف کا موقف لیکر پیس جرنل ازم کو فروغ دیتے ہوئے مسائل ( کونفلکٹ) کو حل کرنے میں کردار ادا کر سکیں . تاہم ہم نے حکومت کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا ہے . " بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کہتے ہیں کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی، جہاں تک کالعدم تنظیموں کی بات ہے تو باقاعدہ طور پر کسی بھی صحافی کو براہراست دھمکی موصول نہیں . اگر کسی بھی صحافی کو دھمکی موصول ہوئی ہو تو وہ حکومت سے رابطہ کر سکتا ہے جنہیں حکومت ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے گی . بلوچستان میں شہید صحافیوں کی امداد کا زکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ " حکومت پریس کلبز اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہوئے صحافیوں کے لئے ہر قسم کی مدد کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، صحافیوں کے لئے ہاوسنگ اسکیم کا جیسے کی منظوری اسی کی ایک مثال ہے . " افغانستان سے امریکی اتحادیوں کے انخلاء کے بعد صحافیوں پہ تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے افغان طالبان نے دو پاکستانی صحافیوں کو کندھار سے اغوا کیا اور متعدد روز تک حبس بے جا میں رکھا صحافیوں کے لئے فرائض کی انجام دہی مذید مشکل ہوتی جارہی ہے . وکیل اور سماجی کارکن جمیلہ کاکڑ کہتی ہیں صحافی معاشرے کا اہم جز ہیں لیکن بد قسمتی کے ساتھ صحافیوں پہ غیر اعلانیہ سیسنسر شپ اور کے تحت کھری خبروں اور سچ بولنے سے روکا جاتا ہے، آٹھ 2016 کے روز جہاں درجنوں وکلاء شہید ہوئے وہیں صحافی بھی اپنے فرائض کے انجام دہی کے دوران پنی جان گنوا بیٹھے، آئین پاکستان کا آرٹیکل 9 " ہر انسان کو جینے کا حق دیتا ہے اور یہ حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی جان کی حفاظت کرے . " جمیلہ کاکڑ صحافی، وکلاء اور دیگر پروفیشنلز لوگوں کی جان کی حفاظت کے لئے از سر نوں مظبوط قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ" نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ وفاقی حکومت ایک یسا قانون بنائے جس کے تحت پروفیشنلز کی جانوں کو قانونی طور پہ حفاظت دی جائے کیونکہ یہ ہمیشہ فرنٹ لائن پہ ہوتے ہیں اور انکی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے . " 2011 میں رپورٹر ود آوٹ بارڈرز کی جانب سے جاری کردہ "ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کی جانب سے کل 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 145 ہے جبکہ ناروے آزادی صحافت کے حوالے سے پہلے نمبر پہ ہے . " اپوزیشن بینچز سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ " ہمارا صوبہ اور ملک سیکیورٹی سٹیٹ بن چکا ہے، ہر ٹارگٹ کلنگ بم دھماکے آئے روز ہوتے ہیں، حکومت صحافیوں کی حفاظت میں مکمل طور پہ ناکام ہوچکی ہے، ملک میں سول مارشلاء ہے جہاں صحافت پہ ہر قسم کی قدغنیں لگائی گئیں ہےںاور صحافیوں کو بیروزگار کیا گیا ہے . ہم نے بارا اسمبلی کے فلور پہ صحافیوں کی حفاظت کے لئے آواز اٹھائی ہے اور قرادادیں منظور کی ہیں اور صحافی برادری سے مسائل کے حل کے لئے ملاقاتیں کی ہیں . " نصراللہ زیرے حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے میڈیا ایکٹ کو صحافت کے لئے خطرناک سمجھتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ " ہم نے اسمبلی کے فلور پہ مجوزہ بل کی مخالفت کی . " انہوں نے مذید بتایا کہ حکومت صحافیوں کی تجاویز پہ عمل کرتے ہوئے صحافیوں کو نہ صرف جان کا تحفظ ہقینی بنائے کرے بلکہ اسکے ساتھ میڈیا کو بھی مکمل طور پہ آزاد کرے . "اگر مجھے پتہ ہوتا کہ شہزاد مارا جائے گا تو میں اسے کبھی صحافت کی اجازت نہ دیتی" . .

متعلقہ خبریں