آئی ایم ایف سے معاہدہ ، حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکتی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کے معاہدے کے بعد حکومت سٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکتی . تفصیلات کے مطابق حکومت نے حالیہ مذاکرات میں آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ سٹیٹ بنک سے قرضہ حاصل کرنے کی اجازت دی جائے لیکن آئی ایم ایف نے اس درخواست کو منظور نہیں کیا اور اجازت نہیں دی .

نجی ٹی وی ٹوئنٹی فور نیوز کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کیساتھ 6ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے معاہدے کے بعد سے اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے رہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کیساتھ قرضہ توسیع پروگرام کےمعاہدے کی شرط کے مطابق حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکتی . ذرائع نے بتایا کہ حکومت آئی ایم ایف کیساتھ معاہدے کے تحت ستمبر 2022تک سٹیٹ بنک سے قرضہ نہیں لے سکتی ،آئی ایم ایف کیساتھ اس تجویز سے اتفاق کیا گیاہے کہ قانون سازی کےذریعے سٹیٹ بنک سے قرضہ لینے کے دروازے کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے گا . دوسری جانب وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے دائر درخواستوں پرسماعت 9 دسمبر 2021 ء تک ملتوی کر دی . جمعہ کو چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور، جسٹس خادم حسین ایم شیخپر مشتمل تین رکنی بینچ نے سود کے خاتمے کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت کی . دوران سماعت عدالتی معاون انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین میں ملک سے رباہ ختم کرنے کی ہدایت براہ راست ہے، ملک میں کنونشن بینکنگ کی کوئی گنجائش نہیں، سٹیٹ بینک کی سمت درست ہے لیکن حکومت رکاوٹ ہے، دنیا سودی نظام سے دور جارہی ہے،آئی ایم ایف بھی کہہ رہا ہے کہ سود کے بغیر نظام چل سکتا ہے، دوران سماعت جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم نے موقف اپنایا کہ عدالت حکومت کو اپنے اعتراضات ثابت کرنے کے لیے ٹائم لائن دے،حکومت بینکنگ انٹرسٹ کو رباہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں، یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بینکنگ انٹرسٹ رباہ ہے، دوران سماعت جسٹس نور محمود مسکانزئی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد تمام فریقین کو سنا جائے گا، اگر کسی معاملے میں تشنگی ہوئی تو سوالات فریقین کے سامنے رکھ کر جواب لیں گے ،کیس کوجلد نمٹانے کی کوشش کی جائے گی،آئندہ سماعت پر بابر اعوان بطور عدالتی معاون دلائل دینگے . وفاقی شرعی عدالت نے معاملہ پر سماعت 9دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے معاونت پر انور منصور خان کی تعریف کی ہے . . .

متعلقہ خبریں