مجھے امید ہے سہیل آفریدی میری سوچ کو لیکر عوام کی بہتری اور صوبے میں امن کے لیے کام کریں گے، عمران خان

راولپنڈی (قدرت روزنامہ)تحریکِ انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِاعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے تازہ بیان میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ نئی صوبائی حکومت ان کے ویژن کے مطابق پائیدار امن، قبائلی روایات اور عوامی امنگوں کے تحت وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر صوبے میں دائمی استحکام کا مؤثر فریم ورک تشکیل دے گی۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں عمران خان آخر میں عمران خان نے امید ظاہر کی کہ خیبر پختونخوا میں قیادت کی تبدیلی ایک نئے باب کا آغاز ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں، قبائلی عمائدین اور مقامی جرگوں کی مدد سے تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کے خاتمے اور دیرپا امن کے قیام کے لیے جامع مذاکراتی عمل شروع کیا جائے گا۔

عمران خان نے اورکزئی کے علاقے میں ہونے والے دہشت گرد حملے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ چاہے وہ عام شہری ہوں، پولیس اہلکار یا فوجی جوان، سب ہمارے اپنے لوگ ہیں جو ان فوجی کارروائیوں میں شہید ہو رہے ہیں۔

’آج شہید ہونے والوں میں ایک کرنل اور ایک میجر بھی شامل ہیں، جو انتہائی افسوسناک ہے۔‘

عمران خان نے شہدا کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی۔

انہوں نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو ’غلط ترجیحات اور مافیا کے مسلط کردہ فیصلے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پالیسیوں نے ملک، خصوصاً خیبر پختونخوا، کو دہشت گردی کی خطرناک اور بے مثال لہر میں دھکیل دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی ریکارڈ تعداد سامنے آئی ہے، جس سے بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

سابق وزیرِاعظم نے زور دیا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے چار اہم فریقوں کے درمیان مذاکرات ناگزیر ہیں۔

ان کے مطابق یہ فریق خیبر پختونخوا کی حکومت، قبائلی عوام، افغان حکومت اور افغان عوام ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کی تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے دور میں امن بحال ہوا تھا، مگر موجودہ صوبائی حکومت ان کے امن وژن پر عملدرآمد میں ناکام رہی اور وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی جنگی پالیسیوں سے خود کو الگ نہ کر سکی۔

عمران خان نے واضح کیا کہ انہی حالات کے باعث صوبائی قیادت میں تبدیلی ضروری ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ڈرون حملوں، فضائی بمباری اور مارٹر گولہ باری کی پالیسی انتہائی احمقانہ حکمتِ عملی ہے، جو ملک کو دہشت گردی کے شیطانی چکر میں پھنسا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی ساڑھے 3 سالہ دور حکومت کے دوران پاکستان میں دہشت گردی تاریخی طور پر کم ترین سطح پر تھی، حالانکہ اُس وقت افغانستان میں اشرف غنی کی بھارت نواز حکومت موجود تھی۔

عمران خان کے مطابق انہوں نے ذاتی طور پر کابل کا دورہ کر کے اشرف غنی کو پاکستان آنے کی دعوت دی تاکہ دوطرفہ تعلقات بہتر ہوں، جس کے نتیجے میں پاکستان اُس عدم استحکام سے محفوظ رہا جس کا سامنا آج ہے۔

انہوں نے موجودہ حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نئی افغان حکومت سے تعلقات بہتر بنانے میں مکمل ناکامی دکھائی ہے اور 40 سال کی مہمان نوازی کے بعد افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

عمران خان نے سابق وزیرِخارجہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا بھر کے دورے کرتے رہے لیکن کابل کا ایک دورہ تک نہیں کیا۔

WhatsApp
Get Alert