پاکستان میں خواتین کے لیے صحافت اتنی مشکل کیوں ؟

رپورٹ : مہوش قماس خان

جب 2017 میں صحافت کی کلاس میں اساتذہ نے ہم سب سے پوچھا کہ اگے صحافت کے شعبے میں کون کون جائے گا تو 21 لڑکیوں میں سے صرف 3 لوگوں نے ہاتھ کھڑے کئے جن میں سے ایک میں تھی۔ تب اس وقت حیرانگی ہوئی کہ ہم 2ق لڑکیاں صحافت تو پڑھ رہی یت مگر صحافت کے شعبے میں صرف ہم 3 لڑکیاں ہی کیوں اگے جائے گی باقی سب کیوں نہیں ۔ تو سب کا ایک ہی جواب تجا کہ میدیا میں خواتین کی عزت نہیں ہوتی۔

اب ہے 2021، دیکھا جائے تو میڈیا میں خواتین کا کردار زیر بحث لایا جائے تو پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں میں خواتین مختلف کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔  مثلاً میزبان، پروڈیوسر، رپورٹر، ایڈیٹر، فوٹوگرافر، کاپی رائٹر، فیچر رائٹر، کالم نگار اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے کاموں کے لئے خواتین میڈیا میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ ملک میں یا ملک سے باہر کوئی بھی بڑا واقعہ یا حادثہ پیش آجائے تو خواتین صحافی بغیر کسی خوف و خطر کےاپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دیتی ہیں اور مرد صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا میڈیا میں کام کرنے والی ان خواتین کو میڈیا میں کام کرنے والے مردوں کے برابر اہمیت دی جاتی ہے یا نہیں؟ تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایسا ناممکن ہے۔ بلکہ میڈیا ہی نہیں، دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی خواتین کو دفاتر میں کام کرنے والے مردوں کے برابر اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈالی جاتی ہے۔جبکہ دوسرے ممالک میں خواتین کے ساتھ برابری سلوک کیا جاتا ہے۔

خواتین کو میڈیا میں کام کرنے کے لئے مردوں کی نسبت کہیں زیادہ چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو چینلز یا اخبارات کی کائنات میں رنگ اور مردوں کے لئے کشش بھرنے کےلئے استعمال کرنے کی نفسیات ہے۔

اس حوالے دے پاکستان کی صحافی عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین صحافیوں کو وہ ترجیح نہیں دی جاتی جو دینی چائے، انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں 70 فیصد خواتین صحافیوں کو 2020ء میں صحافتی ذمہ داریوں اور آن لائن اظہار رائے کے باعث دھمکی یا حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے مطابق بہت سی پاکستانی خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ صحافتی ذمہ داریوں اور اظہار رائے میں سب سے بڑی رکاوٹ آن لائن تشدد ہے، اگر سیلف سنسر شپ نہ کریں تو آن لائن تشدد کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی اور نمل یونیورسٹی کی اساتذہ  امنہ شاہ سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ نمل یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں سالانہ دس ، 45، 50 کے قریب ( فیمیل اسٹوڈنٹس ) ماسٹر کر کہ پاس آؤٹ  ہوجاتی ہیں ، زیادہ تر طالبات کو عملی صحافت کے میدان میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور یا ان کو صحافت کرنے کا شوق نہیں ہوتا۔ ۔ جبکہ بعض اوقات اور کافی نقل و حرکت کا مسئلہ انہیں صحافت میں آنے سے روکتی ہے پھر کام کی جگہ کے مسائل،  حراسگی کے مسائل ہے جن کی وجہ سے خواتیں فیلڈ میں کم آجاتی ہیں ۔  اس بارے میں عورت کا ہمیشہ یہی جائز تحفظات سامنے آجاتے ہیں کہ دوران فیلڈ یا ڈسک میں کام کرانے کے دوران انکی سُپروائز ایڈیٹرز مرد ہوتے ہیں انکے ساتھ کام کرنے میں  اکثر مشکل ہوتی ہے کیونکہ ایسے قصے سننے میں بہت آتے ہیں۔
دارالحکومت اسلام آباد کے  پریس کلب کے سیکریٹری کا کہنا یے کہ ان اسلام آباد میں کافی خواتین صحافی ہے اور فیلڈ میں بھی نظر آتی یے لیکن ان میں بہت ہی کم پریس کلب آتی یے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ہر قسم کے صحافی موجود ہے اور خواتیں اس بات کا شکوہ کرتی ہے کہ ان کو پریس کلب میں مردوں کی جانب سے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا یے جس کی وجہ سے وہ کمفورٹبل محسوس نہیں کرتی۔

عالیہ ، جس کا تعلق اسلام آباد کے ایک نجی نیوز چینل سے ہیں اور وہ ایک یوٹیوبر بھی ہے۔ عالیہ کو صحافت میں 8 سال ہوئے ہیں وہ آج ایک بہت اچھے ادارے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالیہ کے بارے میں یہ مشہور یے کہ وہ ہر مشکل کا مقابلہ کر سکتی یے چاہے وہ مشکل پہاڑ سے ہی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ کیونکہ 5 سال پہلے عالیہ کو ایک مشہور اینکر نے ہراسہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس کی وجہ سے عالیہ نے اپنی آواز اٹھائی، اینکر کے چینل مالکان کے ساتھ تعلقات کافی اچھے تھے اس لیے عالیہ کی بات نا سنہ گئی مگر عالیہ نے بھر پور مقابلہ کیا۔ اس جرئت کو دیکھتے ہوئے عالیہ کی سب نے ساتھ دی اور ایک اچھے چینل نے جاب بھی افرکی۔ عالیہ کا کہنا یے کہ یہ بات تو سچ یے کہ پاکستان میں خاتون صحافی ہرروز ایک پل صراط سے گزرتی ہے۔

ان کے بقول صحافت میں کبھی ڈر محسوس نہیں کیا ہے۔ سوات،  افغانستان اور ملک کے مخلتف علاقوں میں فوجی آپریشن کی ڈٹ کر کوریج کی ہے۔ کبھی کبھی گھر والے کہتے ہیں کہ مشکل جگہوں میں جا کر کوریج نہ کروں لیکن مشکلات کا مقابلہ کرنا ہی صحافت کا نام ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ اس طرح کے اہم عہدوں پر خواتین کا آنا کتنا اہم ہے تو انھوں نے بتایا کہ اس طرح کے عہدوں پر آ کر عورتوں کے حقوق اور ان کے مسائل پر بات کرنی انتہائی اہم ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بعض ادروں کی طرح میڈیا میں بھئ خواتین کو ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے۔ کیونکہ 90 فیصد مرد رپورٹرز کی ڈیوٹی سیاسی رپورٹنگ پر لگائی جاتی ہے۔ لیکن کچھ اداروں میں سینئر خواتین صحافیوں کو سیاسی رپورٹنگ کرنے کے مواقع باآسانی مل جاتے ہیں۔ اداروں کی جانب سے ایسے روئیے پر زیادہ تر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ چینلز یا اخبارات کے مطابق خواتین صحافیوں میں اتنی اہلیت نہیں ہوتی کے وہ کوئی اندر کی خبر لا سکیں، اور اگر کوئی خاتون صحافی کوئی اندر کی خبر لے ہی  آئے تو ایسی صورتحال میں بھی اسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مرد حضرات سمجھتے ہیں کہ خاتون صحافی تعلقات کی بنا پر یا خاتون ہونے کی بنیاد پر اندر کی خبر نکال کر لائی ہے۔ ایسی صورتحال میں مردصحافی غیر محفوظ محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

میڈیا میں اعلیٰ عہدوں کی بات کی جائے، تو یہ بھی مردوں کو ہی نوازے جاتے ہیں۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں ڈائیریکٹر نیوز، کنٹرولز نیوز، بیورو چیف اور پروگرام مینیجرز وغیرہ کے عہدوں پر مرد حضرات ہی فائز ہیں۔ لیکن یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ٹی وی چینلز کے اس دور نے خواتین کو آگےبڑھنے کے مواقع فراہم کئے لیکن بڑے عہدوں پر خواتین کی تعداد کچھ زیادہ نہیں۔ اور اگراتفاق سے ایسا ہے بھی تو ایسی خواتین کو ارد گرد کے لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی باتیں نہ صرف خواتین بلکہ کسی بھی انسان کے لئے حوصلہ شکن واقع ہوتی ہیں۔

عالیہ نے مزیف بتایا کہ خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی کچھ کم نہیں اور وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہوا ہے۔  دھرنا سیاست کے تعارف کے بعد ان واقعات میں مزید اضافہ ہوا۔ جلسوں اور دھرنوں میں خواتین پر حملے ریکارڈ پر موجود ہیں۔

جلسوں میں خواتین صحافیوں پر نعرے لگائے جاتے ہیں، اورمختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات تو ٹیلیفون کالز اور پیغامات کے ذریعے دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔

اس حوالے سے  وفاقی ترجمان برائے حفاظت خواتین ہراسگی کشمالہ طارق کا کہنا تھا کہ آئے دن سوشل میڈیا پر دیکھتی ہوں  کہ خواتیں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب بات شکایت کرنے کی آئے تو خواتین خاموش ہو جاتی یے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس گذشتہ ایک سال سے نیوز میڈیا سے کوئی کیس نہیں آیا جس میں خاتون صحافی کو  ہراساں کیا گیا ہو۔ لیکن جب وہ کسی خاتوں صحافی سے کہی ملتی ہے اور حالات پوچھتی ہے تو وہ ان کے ساتھ آفس میں ہونے والے ہراسگی کے قصے سنانے لگتی ہے لیکن جب ان کو  کہوں کہ اس شخص یا ادارے پر ہراسگی کا کیس کرنا ہوگا تو وہ خاتوں صحافی منع کرتی ہے ، وہ اس لئے نہیں کہ کو جاب کا خطرہ ہوتا یے بلکہ بات گھر تک نا پہنچ جائے اس بات کا ڈر ہوتا ہے۔

کشمالہ طارق نے بتایا کہ جب بھی ان کے پاس کوئی خاتون آئی ہے انھوں نے اس شخص کے پرخچے اڑا دیے۔ کشمالہ طارق کے مطابق سب سے بڑا مسلہ ہمارے گھروں سے شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ ہماری بیٹیوں کو یہ کبھی نہیں کہاں جاتا کہ کس طرح اس مسلے سے لڑنا ہے۔

کشمالہ طارق نے بتایا کہ ایک بار ایک خاتون صحافی نے کہاں کہ جب وہ میڈیا میں آ رہی تھی تو تب ان کے والد نے ان کو بتایا کہ کوئی شکایت یا کوئی بات گھر تک نہیں آنی چائے جس سے میرا نام بدنام ہو۔  ان کا کہنا تھا کہ اب شاید اس لڑکی کے ساتھ کچھ بھی ہو وہ اب اکیلے اس کا مقابلہ کرے گی۔

پاکستان میں ورکنگ وومن کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی معروف سماجی شخصیت ملیحہ حسین نے بتایا کہ جب  بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید کے ساتھ ہراسگی کا واقعہ پیش آیا تو تب بہت کم لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔  انھوں نے بتایا کہ اکثر میڈیا ہاؤسز میں ایسی شکایتوں سے نمٹنے اور تحقیقات کے لیے کمیٹیاں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ جو کمیٹیاں ہیں ان میں اکثریت نااہل افراد کی ہے جنہیں خود اس قانون اور تحقیقات کے طریقہ کار سے متعلق تربیت کی ضرورت ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اب ہراساں کرنے کے کیسز میں بھی سیاسی شخصیات کی مداخلت بہت بڑھ گئی ہے۔

وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری  نے اس نقطے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں  نہ صرف کمیٹی کے ممبران کی تربیت کے لیے کام کا آغاز کرنا چاہیے، بلکہ معاشرے میں ان خواتین کا ساتھ دینے کے لیے ایک آگاہی مہم شروع کرنی ہوگی جو ہراس کے خلاف لڑے۔

انھوں نے بتایا کہ نون لیگ کہ حکومت میں مریم انگرزیب نے ایک کمیٹی بنائی تھی جو خواتین صحافیوں کے ساتھ ہونے والے ہراسگی میں مدد کرتی تھی۔ مگر اب یہ ہراسگی فیزیکل نہیں رہی بلکہ اب سائبر ہراسگی ہوگئی ہے جو کلم کھلا جاری یے اور اس خو روکنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ ان کے صرف اکاونٹ بلاک ہوجاتے ہیں۔

کچھ وقت پہلے انسانی حقوق  کی کائمہ کمیٹی میں خواتین صحافیوں کے ساتھ ہونے والی فیزیکل اور سایبر ہراسگئ پر کافی لمبی بحث جاری رہی۔ کمیٹی  مباحثے میں شریک خواتین صحافیوں نے روزمرہ رپورٹنگ، نیوز رومز میں غیرمساوی سلوک، جنسی فائدہ نہ دینے پر اہم کوریج سے دور رکھنا، پروگرام نہ دینا یا ان کے اوقات کار تبدیل کر دینا، جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔

بعض شرکا کا کہنا تھا کہ عام طور پر جب کوئی خاتون ہراساں کیے جانے کے خلاف شکایت داخل کرتی ہے تو اس کی ساتھی خواتین بھی اس سے دوری اختیار کر لیتی ہیں۔ جبکہ کردار کشی کو خاتون کے خلاف ایک آسان اور موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

فیزیکل ہراسگی اور سائبر ہراسگی کے متعلق اس موقعے پر صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ وہ صحافت کے شروعات سے ہی ان مسائل کا سامنا کر رہی ہت۔ انھوں نے اس مسائل کے خلاف کافی آواز اٹھائی اور آگے بھی خاموش نہیں بھیٹے گی۔ انھوں نے کہاں کہ خواتین کہ لئے صحافت ایک کافی اچھا پیشہ ہے،  صحافت میں آکر وہ اپنے لئے اور سچائی کے لئے آواز اٹھا سکتی یے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ خاتون صحافی صحافت میں آکر یہ بتا سکتی ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ۔ اس لیئے انھوں نے مستقبل میں آنے والے خاتون صحافیوں کے لئے ڈھت کر صحافت چننے کو ترجیح دی۔

ایکشن ریسورسسز کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر خواتین صحافیوں کی عمریں 40 سے کم ہے جن میں سے زیادہ تر کی عمر 25 سے 35 کے درمیان ہے۔ 100 میں سے 61 فیصد خواتیں صحافی پریس کل کی ممبر ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین کی تنخواہ اپنے مرد کلیگ سے کم ہے۔  رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 79 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ میڈیا میں خواتین کے ٹیلنٹ کو کم اور خوبصورتی کو زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ جو ایک بڑی وجہ ہے کہ زیادہ تر نوجوان خواتین صحافی میڈیا میں آنے سے گریز کرتی یے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 10 میں سے 3 خواتیں ہراسگی کا شکار ہوئی لیکن ادارے نے ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان کو نکالنے میں لگ گئے۔ ان اعداد شمار کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کہی بھی خواتین کے لئے صحافت کسی جنگ ست خم نہیں ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی  رپورٹ میں خواتین صحافیوں کو درپیش سائبر ہراسگی پر بات کی گئی ہے، جس سے تنگ آکر وہ یا تو خود اپنے آپ پر سیلف سنسرشپ  عائد کرلیتی ہیں، یا پھر میڈیا انڈسٹری ہی چھوڑ دیتی ہیں، کیونکہ اگر وہ اپنے کیریئر میں آگے بڑھنا چاہیں تو ان کے اہلخانہ یا معاشرے کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

خواتین صحافیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے مطابق وہ آن لائن اپنے ذاتی خیالات کے اظہار میں بہت احتیاط برتتی ہیں، 93 فیصد خواتین صحافیوں کے مطابق انہوں نے اپنے آن لائن ذاتی خیالات کے اظہار میں خود پر پابندیاں لگائیں، دو سال پہلے یہ شرح 83 فیصد تھی۔

میں 4 سال بعد اب بھی یہ سوچتی ہوں کہ اگر ہم خواتیں صحافی اگر ایسے کی ہار مانتے رہے تو اس معاشرے میں ہمارا جینا مشکل ہو جائے گا ۔ اور شاید پر 21 لڑکیوں میں سے کوئی ایک لڑکی بھی صحافت میں انے کے لئے ہاتھ نا اٹھائے

Recent Posts

آسٹریلیا سے شکست کے باوجود بابر اعظم نے ٹی20کرکٹ کے کون سے 2 نئے ریکارڈ بنائے؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان اورآسٹریلیا کے درمیان برسبین آسٹریلیا میں 3 ٹی20 میچز کی سیریز…

5 mins ago

سرکاری گاڑیوں پر ریس کی ویڈیو وائرل، حقیقت کیا؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں سرکاری…

12 mins ago

یوٹیوب پریمیم کیا ہے، صارفین کیا شکایت کررہے ہیں؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آپ کو یوٹیوب استعمال کرتے وقت اکثر اس کی جانب سے قلیل…

21 mins ago

24 نومبر کو اسلام آباد مارچ کا اعلان، پی ٹی آئی قیادت عمران خان سے ناخوش کیوں؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بانی چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی جانب سے…

46 mins ago

آبِ زمزم: برکت، معیار اور خدمت کی عظیم روایت

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)زمزم اسلامی تاریخ میں نہ صرف ایک مقدس اور مبارک پانی کے…

60 mins ago

گلوکارہ نوراں لال کی زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا کیا ہے؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)نوراں لال ایک باصلاحیت اور مشہور پاکستانی پنجابی گلوکارہ ہیں جنہوں نے…

1 hour ago